موجودہ حکومت جس نے حال ہی میں اپنی معیاد پوری کی ہے وہ صرف سیاہ دور کا خطاب لینے کی حقدار ہے ۔پچھلے پانچ سالوں میں ملک پر وہ کونسی آفت ہے جو موجودہ حکومت کے طفیل نازل نہ ہوئی ہو؟ ایسا کون سا شعبہ ہے جو بربادنہ ہوا ہو؟ دہشت گردی اپنے عروج پر رہی اور عوام کی سسکیاں صرف اپنے گھرو ں تک محدود نہ رہیں بلکہ ساری دنیا نے سنیں لیکن نہ سنیں تو حکمرانوں نے ۔ بارود کے ذریعے ایک بازار ہی نہیں بلکہ پورے کے پورے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنایا گیا۔ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا یا گیا۔ انسان کی زندگی کی قیمت میڈیا میں صرف ایک مصالحے دار خبربن کر رہ گئی مگر ہمارے حکمرانوں کو ان لوگوںکی آہیں اور سسکیاں نہیں سنائی دیں۔ شاید ان کے دلوں پر مہر ثبت تھی صم بُکم اُمی کی۔
ایک طرف دہشت گردی نے لوگوں کواپنی گرفت میں لیاتو دوسری طرف مہنگائی ایک زہریلے سانپ کی طرح اپنا پورا منہ کھول چکی ہے۔ غریب عوام جو کہ حالات حاضرہ سے خوفزدہ تھی وہ مزید آفت کی شکار ہوئی۔ وہ مزدور جو سارا دن میں صرف 300روپے کی مزدوری لے کرگھر آتاہے وہ صرف آٹا ، گھی کے بعد چولہے میں آگ جلانے کے کام آتے تھے مگر آہستہ آہستہ مہنگائی نے مزدور کو آٹے اور دال سے بھی محروم کردیا۔ اب جب ایک غریب مزدور شام گئے لوٹتا ہے اس کی جیب میں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ گھر کا چو لہا جلا سکے۔
باقی جو کسر تھی وہ بے روزگاری نے پوری کی۔ ملازمتوں پر صرف صاحب اقتدار لوگوں کا راج ہوگیا۔ نوکری کے لیے پڑھائی اور اہلیت کی بجائے رشوت اور شفارش کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے۔ایم اے پاس نوجوان سڑکوںپر خاک چھان رہے ہیں جبکہ وہ لوگ جن کے پاس رشوت ، سفارش اور جعلی ڈگریاں تھیں وہ اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔بجلی جو پچھلے پانچ سال سے ایک بہت سیریس اوربہت پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے اس کا حل ہمارے حکمران نہیں نکال پائے ۔ بھلا کیوں؟ اس لیے کہ وہ کسی مسئلے پر سوچ بچار کرکے اپنے دماغوں کو تکلیف ہی نہیں دینا چاہتے۔ خدا نے اس دنیا میں ایسا کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا جس کا کوئی حل نہ ہو۔
Power
پھر بھی یہ کتنا اذیت ناک مسئلہ ہے جو اتنے سالوں میں حل نہیں ہوا۔ بات صرف بجلی پر ختم نہیں ہوتی بجلی سے ہمارے ملک کی ترقی کی ڈور جڑی ہے۔ بجلی کی مدد سے چلنے والی فیکٹریاں جن میں لاکھوں افراد کو روزگار ملتا تھا وہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ اتنا نقصان ہونے کے باوجود ہمارے حکمران بڑے مزے سے کرسی پر بیٹھ کر زبانی کلامی طریقوں سے کام چلارہے تھے۔بجلی حاصل کرنے کے لیے چین سے معاہدہ کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا یہ دوستی صرف نام تک محدود ہے؟ کیا اس بار بھی تاریخ کو دھرایا جائے گا؟ کیا پھر سے یہ انتخابات لوگوں کے لیے عذاب ثابت ہوگا۔
کیا پھر لوگوں کو دہشت گردی، بے روزگاری، بجلی کا بحران اور دیگر مسائل میں الجھا دیا جائے گا؟ کیا پھر سے اک نئے سیاہ دور کا آغاز ہوگایا پھر اک نئی صبح کا سورج ہمارا انتظار کررہا ہے جس کی نرم دھوپ ہمیں اذیتوں سے نجات دلائے گی؟ یہ فیصلہ صرف اب خدا کے ہاتھ میں ہے جو ہماری سوچ سے زیادہ وسعت رکھنے والا ہے۔ کیونکہ انسان اس دنیا کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ سمجھ پائے گا۔ یہ جو آج حکمرانی کے لیے بڑے بڑے دعوے کررہے ہیں کل جب صاحب اقتدار بن جاتے ہیں تو اپنی باتوں کوہی نہیں بلکہ انسانیت تک کو بھول جاتے ہیں۔ ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان کے خون کی قیمت پانی سے کم ہوجائے یا پھر عوام میں سسکیاں ابھرنے لگیں۔
ان کے دور میں نجانے کتنے لو گ بھوک کے ہاتھوں مجبور خود کشی کرنے لگے یا پھر اپنے بچوں کو بیچ ڈالیں۔ ان کو کچھ نہیں جاننا صرف وہ اپنے مفاد کا سوچتے ہیں ۔ہر دل و دماغ میں یہ سوالات گھوم رہے ہیں ۔ اس دور کے اختتام پر ایک نئے سویرے کا آغاز ہوگا یا پھر اس سے بھی بدترین دور کا آغاز ہوگا؟ کیا نئے حکمران بھی کسی مسئلے کا حل نکال سکیں گے؟ کیا بجلی اب جو چوبیس گھنٹوںمیں سے چار گھنٹے آتی ہے تو نئے دور میں بجلی کا صرف نام سنا کریں گے؟ کیا پاکستان کے تمام وسائل کو یوں ہی ضائع ہونے دیا جائے گا اور وسائل کی کمی کا رونا رویا جائیگا؟ کیا مہنگائی کا سانپ سب کچھ نگل جائے گا۔
لوگوں میں اور زیادہ خون ریزی اور دہشت گردی کا دور دورہ ہوگا؟کیا پھر ایسے حکمران مسلط ہونگے جو نہ صرف مسئلے کا حل جانتے ہوں بلکہ وہ یہ بھی جانتے ہوںکہ مسئلہ کیا ہے؟ یہ کائنات لوگوں سے بھری ہوئی ہے مگر ان میں انسان اور انسانیت کو جاننے والے چند ایک ہیں۔ رب سے یہ دعا ہے کہ اس نئی حکومت پر صرف انسا ن برسراقتدارآئیں جو انسان کے درد کو سمجھ سکیں ۔جو عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی کے لیے کام کریں۔ پہلے لوگوں کی طرح ملک کو مقروض کرکے اپنی جیب نہ بھریں۔ اللہ ہم کو ایسے حکمران چننے کی توفیق دے جو عوام کے خیر خواہ ہوں اور عوام کے کے دکھ کواپنا دکھ سمجھ کر اس کو حل کر سکیں۔