آج کل انتخابات کا زورو شور ہے اور سیاسی جماعتیں نئے نئے نعروں کے ساتھ عوامی عدالت میں عوام کے ووٹوں کے حصول کی خا طر سر توڑ کوششوں میں جٹی ہوئی ہیں۔عوام اپنے مینڈیٹ سے کسے سرفراز کرتے ہیں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ سیاست کا کھیل بڑا ہی بے اعتبارا ہوتا ہے اور اس میں کسی کو کوئی سمجھ نہیں آتی کہ آخری لمحوں میں عوا م کس طرح کے ردِ عمل کا مظا ہرہ کریں گئے اور کس جماعت کے حق میں اپنا وزن ڈ ال کر اسے جیت سے ہمکنار کر دیں گئے۔
اس وقت ملک کی تین بڑی جماعتیں پاکستان تحریکِ ا نصا ف، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کی امید لگائے ہو ئی ہیں۔کوئی شخص یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگلی حکومت کس جماعت کی ہو گی۔الیکشن کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب اس وقت پاکستان کی ساری سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی ٦٠ فیصد نشستیں ہیں۔
جو جماعت پنجاب میں فتح سے ہمکنار ہو جاتی ہے وہی مرکز میں بآسانی حکومت بنا لیتی ہے ۔اگر ہم پچھلے انتخابی نتائج پر نظر دوڑائیں تو یہ بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ پنجاب میں اکثریتی جماعت نے ہی ہمیشہ مرکز میں حکومت تشکیل دی تھی۔یہ ممکن نہیں ہے کہ پنجاب کی اقلیتی جماعت مرکز میں حکومت تشکیل دے سکے۔اس لحا ظ سے ماضی میں پنجاب کی تینوں بڑی جماعتیں پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) ہی وزارتِ عظمی سے سرفراز ہو تی رہی ہیں۔
کیونکہ ان کے علاوہ کسی دوسری جماعت کا پنجاب میں کوئی قابلِ ذکر وجود نہیں۔کچھ جماعتیں عوامی حمائت کا دعوی تو بہت کرتی ہیںلیکن عملی طور پر ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ۔دعووں کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب بات عوامی مینڈیٹ تک پہنچتی ہے تو وہ بالکل تہی دامن ثابت ہوتی ہیں۔ میں اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی مثال دوں گا جو ہمیشہ اقتدار کے خوا ب تو دیکھتی ہے لیکن انتخابات میں دوچار نشستوں سے زیادہ پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی۔
اس دفعہ تو پنجاب میں ان کی حالت انتہائی پتلی ہے کیونکہ اس دفعہ وہ دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں کے بغیر انتخابات میں جا رہی ہے۔جما عت اسلامی ہمیشة مسلم لیگ (ن) کی حمائت اور زیرِ سر پرستی پنجاب میں چند نشستیں جیتتی رہی ہے لیکن اس دفعہ مسلم لیگ (ن) کی بے رخی کی وجہ سے پنجاب میں جماعت اسلامی کا مستقبل بالکل تاریک نظر آرہا ہے۔اس کی انتخابی مہم انتہائی پھیکی پھیکی سی ہے کیونکہ وہ کسی بڑی سیاسی جماعت کی چھتر چھایا اور سرپرستی سے محروم ہے۔
Jamaat Islami
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے اور ہر حلقے میں اس کا ایک مخصوص ووٹ بینک بھی ہے جو کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کی جیت میں اہم رول ادا کر سکتاہے لیکن وہ ووٹ بینک اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ جماعت اسلامی کا اپنا امیدوار اس ووٹ بینک سے بآسانی جیت جائے۔ معلوم نہیں کہ دائیں بازو کی دونوں بڑی جما عتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف نے جماعت اسلامی سے اتحاد کرنا کیوں مناسب نہیں سمجھا۔
جماعت اسلامی نے کوشش تو بہت کی کہ ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک سے اس کا ا تحاد ہو جائے لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔مذاکرات بھی ہوئے میٹنگیں بھی ہوئیں لیکن مطالبات شائد اس نوعیت کے تھے کہ ان دونوں بڑی جماعتوں نے معذرت کر لی اور یوں جماعت اسلامی بالکل تنہا رہ گئی۔اب انتخابات میں اس کا کہیں ذکر بھی نہیں ہو رہا جو واقعی پریشان کن صورتِ حال ہے۔جماعت اسلامی کی ہمیشہ سے یہ حکمتِ عملی رہی ہے کہ کہ یہ ہر انتخاب سے قبل کوئی نہ کوئی اتحاد قائم کر کے اس کی کھڑپینچ بن جاتی ہے لیکن اس دفعہ جماعت یہ معجزہ سر انجام نہیں دے سکی اور بالکل الگ تھلگ اور اکیلی نظر آرہی ہے۔
جو اس کے وجوداور بقا کو خطر وں سے دوچار کر سکتی ہے ۔ ان انتخابات میں اس کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے ۔حالیہ سالوں میں جماعت اسلامی نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت بننے کی جسارت کر رکھی ہے اور مجھے شک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اس کی دوری بھی اس کی تنہائی کا ایک سبب ہے ۔پاکستان میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی قوت اور طاقت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور جو کوئی اس حقیقت سے چشم پوشی کرتا ہے اس کیلئے سیاسی میدان میں جمے رہنا انتہائی مشکل ہوجا تا ہے۔
جماعت اسلامی اسی کی عملی مثال بنی ہوئی ہے۔مذہبی جماتیں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے رہی ہیں لیکن افغانستان میں امریکی مداخلت اور طالبان کی حمائت کی وجہ سے مذہبی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ میں دوریوں نے جنم لیا جن کو فی ا لحال پاٹا نہیں جا سکا۔یہ دوریاں اب بھی موجود ہیں تبھی تو ان انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان مذہبی جماعتوں کو برداشت کرنا پڑیگا۔ مذہبی جماعتوں کو دیر یا بدیر اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی جانا ہے کیونکہ ان کا وجود اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی کے بغیر قائم رہنا ممکن نہیں ہے۔
سیاسی بیان بازی کی حد تک تو مذہبی جماعتیں سب سے آگے نظر آئیں گی لیکن پارلیمنٹ میں ان کی غیر موجودگی سے ان کی اہمیت بالکل ختم ہو جائیگی جس پر مذہبی جماعتوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ان انتخا بات کا سب سے دلچسپ پہلو پاکستان تحریکِ انصاف کی پنجاب میں بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ١٩٧٠ کے انتخابات میں پنجاب پی پی پی کا سب سے مضبوط قلعہ تھا اور ذولفقار علی بھٹو نے اس قلعے کو اپنی شعلہ بیان قیادت سے فتح کیا تھا۔
Mian Brothers
جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے بعد پنجاب میاں برادران کی جولی میں ڈال دیا گیا اور انھوں نے دو دہائیاں اس صوبے پر راج کیا۔اسٹیبلشمنٹ نے کسی نہ کسی طرح سے پنجاب کو میاں برادران کی مٹھی میں دئے رکھا کیونکہ پی پی پی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت ہونے کی وجہ سے انھیں قابلِ قبول نہیں تھی۔١٩٨٨ کے انتخابات میں پی پی پی پنجاب میں قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں جیت گئی لیکن صوبائی انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی اور یوں میاں برادران کا پنجاب پر قبضہ اسی طرح برقرار رہا۔
جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ کا نعرہ دینے والی جماعت اسلامی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر میاں برادران کو پی پی پی کی یلغار سے بچایا تھا ،لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہی جماعت اسلامی اب بالکل تنہا کھڑی ہے اور میاں بردران انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی حمائت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔١٢ اکتوبر ٩٩٩٩ کو جنرل پرویز مشرف کے فوجی شب خون کے بعد میاں برادران پر کڑا وقت آیا تو پنجاب ایک دفعہ پھر مسلم لیگ کو ہی دیا گیا۔
لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اب مسلم لیگ کی قیادت میاں برادران کی جگہ گجرات کے چوہدری کر رہے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی حکمتِ عمل کے تحت مسلم لیگ ہی پنجاب کی وارث ٹھہری حالانکہ پی پی پی نے کئی دفعہ مسلم لیگ کوبچھاڑ ا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ساری طاقت کی بنیاد پنجاب ہے اور پنجاب کو وہ کسی ایسے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے جو ان کیلئے دردِ سر بن جائے۔ جنرل پرویز مشرف اور میاں برادران کی باہمی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ میں بھی دراڑیں پڑ گئیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک قابلِ ذکر حصہ میاں برادران سے ہمدردی رکھتا تھا۔
عدلیہ اور میاں برادران کی باہمی دوستی بھی اسٹیبلشمنٹ کیلئے خطرے کی گھنٹی بننے لگی تو اسٹیبلشمنٹ نے نئی حکمتِ عمل اپنانے کا فیصلہ کیا۔میاں برادران اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہلکی ہلکی دوریوں کا ا حساس ابھرنے لگاجسے میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی نے اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ ملاقاتوں سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں اس میں خا طر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
اپنی بالا دستی قائم کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے پنجاب میں ایک نئی سیاسی قوت پاکستان تحریکِ انصاف کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ٣٠ اکتوبر ٢٠١١ کو اقبال پارک لاہور میں تحریکِ انصاف کا جلسہ اس کا نقطہ آغاز تھا۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا ا س منصوبے کے بانی تھے اور انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کو مضبو ط کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔
میاں برادران نے جنرل شجاع پاشا کی ان حرکات پرکڑی تنقید بھی کی لیکن جنرل شجاع پاشا کے ذمے جو کام لگا یا گیا تھا وہ انھوں نے بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیا۔ عمراں خان نے اس حمائت کو جسطرح عوامی قوت میں بدل ڈالا وہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔پاکستان تحریک ِانصاف اس وقت پنجاب کی بہت بڑی قوت ہے اور پنجاب پر اپنا دعوی جتا رہی ہے۔