سابق صدر پرویز مشرف پرہی غداری کا مقدمہ کیوں

Supreme Court

Supreme Court

معزز قاریئن ،آئیں دیانتداری اور تعصب کی عینک اتار کراُس وقت کے حالات پر ایک نظر ڈالتے ہیںجو سب آن ریکارڈ ہے ۔ پس پردہ کیا عوامل تھے جو 99ء میں فوجی قبضے کا باعث بنے ، بظاہر تو ایمر جنسی لگانے کے ایسے کوئی حالات نہیں تھے ،لیکن اندرونی طور پر حالات خراب اور آئنی بحران تھا ،اور ان کی ابتدا ،جب وزیر آعظم نے 13ویں اور 14منظور کرواکر ،ایک متوازی عدالتی قانون منظور کروایا جس کی رو سے دشت گردی کی خصوصی عدالت سے سزا پانے والاملزم ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کر سکے گا۔

جس پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اعلےٰ عدلیہ کے تحفظات کا اظہار کیا مگر دو تہائی اکثریت ر کھنے والے وزیر آعظم نے کوئی پرواہ نہ کی کہ جو ہو گیا سو ہو گیا ،چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تقرری کی سمری حکومت کو بھیجی مگر باوجود کہ اس سمری پر دستخط کرے حکومت ٹال مٹول کرتی رہی آخر یہ کیا کہ قومی اسمبلی سے قانون پاس کرایا اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17سے کم کرکے 12 کر دی ،چیف جسٹس نے اِس قانون ہی کو معطل کر دیا،مگر پھر بھی حکومت نے ججوں کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری نہ کیا۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بنچ میں صدر فاروق لغاری کو کہاگیا کہ ارٹیکل 190 کے تحت پانچ ججوں کے تقرر کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں ،صدر نے حکومت سے رابطہ کیا تو حکومت نے بآمر مجبوری ججوں کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ۔ تاہم وزیرآعظم اور ن لیگ کے ارکان نے چیف جسٹس پرسخت تنقید کی ،ایک اور درخواست کی سماعت پر 13ترمیم معطل کر دی ،وزیر آعظم نے پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے حکم کو آئین کے خلاف قرار دیا ، چیف جسٹس نے صورت حال پر ازخود نوٹس پر وزیر آعظم نواز شریف کو توہیں عدالت کا نوٹس جاری کیا۔

میاں صاحب عدالت میں پیش ہوئے اپنے بیان پر اظہار افسوس کیا عدالت نے فرد جرم عائد کی ،حکومت نے قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور قانون پاس کیا کہ ،توہین عدالت سے ممکنہ سزا پانے والا اپیل کر سکے گا اور فیصلہ تک سزا معطل رہے گی ،سمری دستخط کے لئے صدر کو بھیجی صدر فاروق لفاری نے بھی اِس پر دستخط کرنے میں لیت ولعل کی اُدھر سپریم کورٹ نے احکامات جاری کئے کہ صدر اس قانون پر دستخط نہ کرے ،(2007 سے زیادہ تلخ صورت حال تھی۔

حکومت اور عدلیہ ایک دوسرے کے سامنے تھی) ، بھاری میندیٹ کے حامل وزیر آعظم کو گوارا نہیں تھا ،وہ چاہتے تھے کہ عدالت جو فیصلہ کرے میاں صاحب سے پوچھے ۔حالات اس مقام پہنچ گئے کہ میاں صاحب کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا جہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا تاہم نومبر 97 میں موٹروے کا افتتاح کر کے وزیر آعظم میں نوز شریف نے اپنی طاقت کا بھر پور مظارہ کرکے فوج عدلیہ اور ایوان صدر کو ایک پیغام پہنچایا۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

میاں محمد نواز شریف زیڈ اے بھٹو سے زیادہ ظاقت ور وزیر آعظم ،چاروں صوبوں میں بھی گرفت مضبوط تھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر محض چند ممبر ہی باقی رہ گئے تھے بھٹو سیاست دان تھا ،جبکہ میاں نواز شریف تاجر صنعت کار ہوتے ہوئے حادثاتی طور پر ضیائی مارشل لاء میں منظر پر آئے اِس دور میں پاکستانی تاریخ کا بھاری منڈیٹ ملا ،اب اپنا رخ عدلیہ کی طرف موڑا سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں پٹیشن دائر کی گئی۔

چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن منسوخ کیا جائے (اپنی نوعیت کا عجیب مقدمی کہ)سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری کے بینچ نے درخواست سماعت کے لئے منظور کی اور اپنے آئینی باس کے خلاف حکم جاری کرتے ہوئے کام کرنے سے روک دیا چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے ایک انتظامی حکم سے اِس فیصلے کو منصوخ کر دیا ،کیسی خوبصورت تاریخی کاروائی ہے کہ کوئٹہ رجسٹری کے تیسرے جج جسٹس ارشاد حسن خان نے عدلیہ کے آئینی سربراہ کے انتظامی حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔

ایسی ایک پٹیشن سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں دائر کی یہاں بھی بنچ نے سماعت کی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو نہ صرف فرائض کی ادائیگی بلکہ کسی قسم کے انتظامی اور عدالتی حکم جاری کنے سے روک دیا ،جسٹس سعید الزمان صدیقی نے عدالتی عملے کو ہدایات جاری کیں کہ سنیئر ترین جج جسٹس اجمل میاں کو صورتحال سے آگاہ کیا جائے اور اُن سے کوئٹہ اور پشاوررجسٹری میں دائر آئنی پٹیشن کی سماعت کے لئے فل بنچ کی تشکیل کے احکامات لئے جائیں ،اجمل میاں نے ایسی صورت حال میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا۔

پھر جسٹس سعید الزماں صدیقی از خود چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہو گئے (کیا یہ صورتحال 28اکتوبر58ئ5جولائی77ئ،یا 12اکتوبر 1999 ،سے مختلیف تھی جب جنرل ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے ازخود چیف ایگزیکٹیو کے منصب پر فائز ہوئے ) اور آئینی پٹیشنز کی سماعت کے لئے 15رکنی بیچ تشکیل دیا جس میں آئینی چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور سینئر ترین جج جسٹس اجل میاں کو شامل نہیں کیا ،واضح طور پر علےٰ عدلیہ دو حصوں میں تقسم کر دہ گئی (تب یہ عدلیہ کے محافظ کالے کوٹ والے جمہوریت کے رکھوالے کہاں تھے )چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے فوج سے ججوں کے تحفظ کے مدد طلب کی مگر کہا گی۔

پولیس فورس کافی ہے 28نومبر کو وزیر آعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی سماعت شروع ہونے سے قبل مسلم لیگ کے ارکان پارلیمنٹ اور کرکنوں نے بھاری تعداد میں سپریم کو رٹ پر حملہ کر دیا ، (پاکستان ہی کیاشائد دنیا میں ایسی مثال ملنا مشکل ہے …) چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور دیگر معزز جج صاحبان نے بھاگ کر جان بچائی مسلہ13 آئینی ترمیم اور توہین عدالت تھی چیف جسٹس قانون وآئین کی روشنی میں فیصلہ کرناچاہتے مگر وزیر آعظم اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے تھے۔

Chief Justice

Chief Justice

اسی دوران وزیر آعظم میاں نواز شریف مع جنرل جہانگیر کرامت،چیئر مین سینٹ وسیم سجاد،سپیکر قومی اسمبلی،وزیر قانونایوان صدر پہنچے وزیر آعظم نے وزیر قانون خالد انور کو کہا سجاد علی شاہ کی برطرفی کی سمری صدر کو پیش کریں ،صدر نے چیف جسٹس کی بر طرفی کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر تے ہوئے کہا کہ انہیں یہ اطلاعات ملی ہیں کہ وزیر آعظم ججز پر کا م کر رہے ہیں اور عدلیہ کو تقسیم کرنے کے لئے کچھ ججز کو بریف کیس پہنچائے گئے ہیں۔

وزیر آعظم نے ان الزامات کی تردید کی ،چیئر میں سینٹ وسیم سجاد نے کہا صدر کا سمری پر دستخط کرنا آئینی ہے مگر صدر فاروق لغاری نے عہدہ صدرات سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی اور اگلے دن چیئرمین وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا حلف اُٹھا لیا ، ملکی تاریخ میں اِس وقت سپریم کورٹ میں دو چیف جسٹس صاحبان کی عدالتیں لگیں،چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں قائم بینچ 13 ،ترمیم کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کر رہا تھا اور 13،ترمیم معطل کر دی۔

دوسری عدالت میں قائم مقام چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کر رہا تھا نے جسٹس سجاد علی شاہ کا 13 ترمیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے عہدئے سے برطرف کرتے ہوئے سینئیر جج جسٹس اجمل میاں کو حکم دیا کہ وہ قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیں(انصاف کی خوبصورت مثال) ،حکومت کو حکم دیا کہ فوری نوٹیفکیشن جاری کرے چیف جسٹس کی برطرفی کی سمری پر قائم مقام صدر وسیم سجاد نے دستخط کئے ۔وزیر آعظم ایک ہی تیر سے صدر فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کو نشانہ بنا گئے۔

اب وہ مطلق العنان ھکمران تھے، 98ء میں ایٹمی دھماکہ کر کے مقبولیت کی معراج پر پہنچ گئے ،آرمی چیف جہانگیر کرامت نے نیول سٹاف کالج لاہور میں لیکچر کے دوران کہا کہ ملک کی سلامتی کے پیش نظرملک میں سیکیورٹی کونسل کی طرح، ایک ادارہ ہو جس میں سیاسی قیادت کے ساتھ فوجی قیادت بھی ہو ،وزیر آعظم نواز شرف کو یہ تجویز انتہائی ناگوار گزری ،چیف آف آرمی سٹاف سے فوری استعفٰی طلب کیا ،جنرل جہانگیر کرامت نے استعفیٰ دے دیا ،جسے فوج نے برا منایا ،آئندہ کے لئے سوچا کہ اگر اب فوج کے سربراہ کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو اِس کی مذاہمت کی جائے گی۔

جنرل جہانگیرکرامت کے بعد نواز شیرف نے بڑی چھان بین کے لیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف کو ترقی دیکر چیف آف آرمی سٹاف بنایا .. ملک میں تمام دینی گروپس اور تاجر و صنعت کار بھی اُن کی پشت پرتھے، مستقبل کا غیر جانبدار مورخ یہ سچ لکھنے پر مجبور ہو گاکہ 12 اکتوبر کی فوجی کاروائی کے زمہدار خود میا ں نواز شریف تھے فوج کسی طرح بھی زمہ د ار نہیں ،فوج نے تو جنرل جہانگیر کرامت کے استعفیٰ کے بعدیہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ اپنے چیف کے خلاف ایسے کسی قدم کی مذاہمت کریگی ِ اور یہ میاں صاحب کے علم میں تھا۔

پاکستان کی تاریخ کا طاقتور ترین حکمران ،عسکری قیادت کا یہ منصوبہ کہ اِس سے پہلے کو نواز شریف اُن میں سے کسی پر وار کر ے ، میا ں صاحب کو کیوں نہ نکرے لگا دیا جائے …یہ کہنا کہ زمہدار صرف مشرف ہی تھا یہ سچ نہیں وہ لوگ،97,98 اور 99 کے حالات سے بے خبر نہیں، جو کے میڈیا میں انمٹ موجود ہیں بے شمار لوگ حیات ہیں، خصوصاً،مولانا سمیع الحق،مولانا فضل الرحمان جو مشرف کے خلاف بیان دیکر نمبر بنا رہے ہیں ، مولانا فضل الرحمن، مشرف کی بائیں طرف قاضی حسین احمد کے ساتھ عمران خان بھی، پیچھے مولانا سمیع الحق کھڑے ہیں۔

Musharraf

Musharraf

کم از کم جماعت اسلامی،جے یو آئی کے دونوں دھڑوں کو مشرف خلاف کچھ کہنے سے پہلے اپنے گریباں میںجھانکنا چاہئے ،کہ مشرف کو خوش آمدید کہنے والے پہلے یہی لوگ تھے جناب چوہدری شجاعت حسین نے ٹھیک ہی کہا کہ مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ میں ایسے اقدامات سے باز رہیں جن کے نتائج پر بعد میں قابو نہ پایا جاسکے ، تمام اپوزیشن جماعتیں ”نواز ہٹاؤ ملک بچاؤ”کے ایجنڈے پر اکٹھی ہوگئیں اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے نام سے اتحاد وجود میں آگیاجس نے فوج کو تقویت دی، اور عسکری قیادت نے باہم مشاورت ہی سے 12اکتوبر1999کو مشرف تو فضا میں تھا۔

ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی،مارشل لا ء کا کہیں زکر نہیں جنرل( ر)پرویز مشرف نے یہ سچ کہاکہTake over نہیں کیا بلکہ انتطام انہیں hand overکیا گیا، انتظام ہینڈ اوور کرنے والے ابھی تک پس پردہ ہیں ،مشرف کے وکیل قصوری نے بروقت کہا ہے کہ پنڈورا بکس نہ کھولئے ورنہ ….! سپریم کورٹ میں غداری کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دئے مشرف کے ساتھ انصاف ہو گا ،وکیل صفائی نے کہا جیسا ،کاغذات مسترد کئے جانے پر ھائی کورٹ میں اپیل کی وہاں سے انہیں انصاف ملا کہ تا حیات نااہل قرار دئے گئے۔

مشرف کی اعلےٰ ظرفی کو سلام،یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں ہر طرف تعصب ہے ،پر تعیش زندگی چھوڑ کر آئے اور خود قانون کے حوالے کیا،اُس نے کسی پر کوڑے نہیں برسائے بلاوجہ کسی کو قید نہیں کیا میڈیا کو وہ آزادی دی جو ماضی کی کوئی سیاسی حکومت بھی نہ دے سکی ،اسکے خلاف کھل کر تنقید کی گئی یہ آزادی۔

تحریر : بدر سرحدی
03054784691