محمد بن قاسم کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو کہ بنو امیہ کا ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا ۔ محمد بن قاسم نے 29سال کی عمر میں سندھ فتح کر کے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ اس کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک ہیرو کا اعزاز حاصل ہے ۔اور اسی لیئے سندھ کو باب اسلام یعنیٰ اسلام کا دروازہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہی سے کھلا۔
محمد بن قاسم 694ء میں طائف میں پیدا ہوا ۔ اس کے والد خاندان کے ممتاز افراد میں شمار کیئے جاتے تھے۔ جب حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے تففی خاندان کے ممتاز لوگوں کو مختلف عہدوں پر مقرر کیا۔ ان میں محمد بن قاسم کے والد قاسم بھی تھے ۔ جو بصرہ کی گورنری پر فائز تھے۔ اس طرح محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ تقریباََ پانچ سال کی عمر میں اس کے والد انتقال کر گئے۔
بچپن ہی سے محمد بن قاسم مستقبل کا زہین اور قابل شخص نظر آتا تھا۔غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کر سکا اس لیے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگیا۔ فنون سپہ گری کی تربیت اس نے دمشق میں حاصل کی تھی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلی عہدے حاصل کر کے امتیازی حیثیت حاصل کی۔
15سال کی عمر میں ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے سپہ سالار ی کے فرائض سونپے گئے۔ اس وقت بنو امیہ کے حکمران ولید بن عبدالمالک کا دور تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی ایک معمولی چھاؤنی شیراز کو ایک خاص شہر بنادیا اور اس شہر کا گورنر مقرر ہو ا جہا ں اس نے اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کر کے اپنی قابلیت و سکہ بٹھایا۔
19 سال کی عمر میں ایران کے صوبہ فارس کا گورنر مقرر ہوا۔ اور دس سال تک یہ زمہ داری سر انجام دی 17 سال کی عمر میں ہی سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا ۔ اس نے سندھ کے اہم علاقے فتح کئے اور ملتان کو فتح کر کے سندھ کی فتوحات کو پایئہ تکمیل تک پہنچایا لیکن شمالی ہند کی طرف پڑھنے کی خواہش حالات نے پورہ نہ ہونے دی۔
نظام رواداری: محمد بن قاسم کم سن تھا لیکن اس کم سنی میں بھی اس نے نہ صرف ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کیا بلکہ ایک کامیاب منظم ہونے کا بھی ثبوت دیا۔ اس نے تقریباََ 4 سال سندھ میں گزارے لیکن اس مختصر عرصے میں اس نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔
محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور عملی ہر اعتبارسے بے شمار اثرات کی حامل تھی۔شخصیت و کردار: محمد بن قاسم ایک نو عمر نوجوان تھا اس کم عمری میں اس نے سندھ کی مہم پر سالار کی حیثیت سے جو کارنامے انجام دیئے وہ اس کے کردار کی پوری طرح عکاسی کرتے ہیں۔
Muhammad Bin Qasim
وہ زبردست جنگی قابلیت اور انتظامی حلاحیتوں کا مالک تھا ۔ اس کی ان صلاحیتوں کی ثبوت کے لئے سندھ کی مہم کی کامیابی ہی کافی ہے۔ اس کی اخلاقی و کردار کا اندازہ اس کی بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غیر قوم اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔سندھ کے عوام اس سے حد در جہ چاہت کا اظہار کرنے لگے تھے ۔ تاریخ سندھ کے مصنف اعجاز الحق قدوسی تحریر کرتے ہیں۔
محمد بن قاسم جب سندھ سے رخصت ہونے لگے تو سارے سندھ میں ان کے جانے پر اظہار افسوس کیا گیا ۔ ان کی وفات پر شہر کیرج کے ہندوؤں اور بدھوں پرستوں نے اپنے شہر میں ان کا ایک مجسمہ بنا کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا یہی فکر فکر فتوح البلدان کے مصنف نے بھی کیا ہے۔محمد بن قاسم کی شخصیت انتہائی پروقار تھی ۔ اس کا اخلاق دوسروں کو جلد گرویدہ بنا لیتا تھا۔
اس کی زبان شیریں اور چہرہ ہنس مکہ تھا۔ وہ ایک باہمت ، با مروت، رحمدل اور ملنسار انسان تھا۔ وہ شخص سے محبت سے پیش آتا اور اس کے ماتحت اس کی حد درجہ عزت و احترام کرتے تھے ۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتا تھا ۔ اس نے ہر موڑ پر عقل و فراست کو پوری طرح استعمال کیا اور اس کا ہر قدم کامیابی کی راہیں تلاش کرتا تھا ۔ اس کی بلند خیالی اور مستحکم ادارے اس کی کامیابی کی دلیل تھے۔
ملتان کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے شمالی ہند کو سر سبز و شاداب علاقے کی جانب متوجہ ہونے کے لئے قدم بڑھائے ۔ پہلے فتوج کے راجہ کو دعوت اسلام دی لیکن اس نے قبول نہ کی تو محمد بن قاسم نے فتوج پر حملہ کی تیاری شروع کر دی ۔ اس دوران 95ھ میں حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا جس پر محمد بن قاسم نے فتوج پر فوج کشی کے بجائے واپس آگیا۔
حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد ولید بن عبد الملک نے مشرقی ممالک کے تمام گورنروں کے نام احکامات جاری کئے کہ وہ تمام فتوحات اور پیش قدمی روک دیں ۔محمد بن قاسم کی شمال ہند کی فتوحات کی خواہش پوری کرنے کی حالات نے اجازت نہ دی اور کچھ ہی ماہ بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کا بھی 96ھ میں انتقال ہوگیا۔
Muhammad Bin Qasim
اموی خلیفہ ولیدبن عبدالملک کے انتقال کے ساتھ ہی فاتح سندھ محمد بن قاسم کا زوال شروع ہوگیا ۔ کیونکہ ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدلملک جانشین مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا ۔ حجاج کا انتقال اگر چہ اس کی خلافت کے آغاز سے قبل ہی ہو گیا لیکن اس عدالت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کی تمام خدمات اور کارناموں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کی جرم میں عذاب کا نشانہ بنایا۔
سلیمان نے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب اس گرفتار ی کا پتہ چلا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہاکہ ہم تمہیں اپنا امیر جانتے ہیں اور اس کے لئے تمہارے ہاتھ پربیعت کرتے ہیں ۔ خلیفہ کا ہاتھ ہر گز تم تک نہیں پہنچنے دیں گے لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ ک حکم کے سامنے آپ کو جھکا دیا ۔ یہ اس کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کے امداد کے لئے سندھ کے ریگستان کا ہر زرہ آتا لیکن اس نے اپنے آپ کو ابی کبشہ کے سپرد کر دیا ۔
محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد دمشق بھیجا گیا ۔ سلیمان نے اسے واسط کے قید خانے میں قید کر والیا ۔7ماہ بعد قید خانے کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ واپس اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ اس طرح محسن سلطنت کی خلیفہ نے قدر نہ کی اور ایک عظیم فاتح محض کی زاتی عداوت و دشمنی کی بناء پر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ لیکن اس نے جنگی صلاحیتو ، جرات اور حسن و اخلاق کے باعث ہندوستان میں کارنامے انجام دیئے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گئے ہیں اس کی موت سے دنیا ئے اسلام کو عظیم نقصان پہنچا۔
سندھ محمد بن قاسم کے بعد : محمد بن قاسم سندھ میں چار سال رہا ۔ فتح سندھ کے بعد اس نے یہاں کا نظام حکومت انتہائی کامیابی سے چلایا۔ اس نظام کی کامیابی یقینا اس کی شخصیت کی پرہون منت تھی۔ اسے سندھ کی گورنری سے معزول کر کے یزید بن ابی کبشہ مقرر کیا گیا۔لیکن ا س کا چند ہی دن بعد انتقال ہو گیا۔ اس کے انتقال اور نئے گورنری کے آنے تک محمد بن قاسم کی گرفتاری کے اثرات سندھ میں بد نظمی کی صورت میں نظر آنے لگے۔