پاکستان میں ہر چیز کی قیمت ہے سوائے انسانی جان کے آئے روز کی قتل وغارت سے نہ تو حکمرانوں پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی اب ہم نے اس پر کوئی مزاحمت کی جس کا کوئی جاتا ہے تو جائے ہماری بلا سے ہم تو اپنے گھر میں ٹی وی لگائے سکون سے گپیں لگا رہے ہوتے ہیں اس میں صرف ہمارا ہی قصور نہیں ہے بلکہ ہمارے سیاسی ٹھگ نما حکمرانوں نے ہمارے اندر شعور کو آنے ہی نہیں دیا نہ ہمیں عقل ہوگی نہ ہم کوئی کام کی بات سوچیں گے بلکہ ہمیں روزی اور روٹی میں الجھا دیا اور پھر ہماری اسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے کچھ شعبدہ باز سیاستدانوں نے ایک نعرہ بنا دیا اور آج تک روٹی ،کپڑا ،مکان کا لالچ دیکر ہمیں اس سے محروم کیا جاتا رہا جبکہ ہمیں ان سنہرے خوابوں کا لالچ دیکر خود ان لٹیروں نے کہیں سرے محل بنا لیا۔
کہیں شریف پیلس بن گیا اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے دنیا کے اعلی تعلیمی اداروں میں داخل کروادیا اور جنہوں نے اپنے روشن مستقبل کے لالچ میں ان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ان کے بچوں کو سکولوں میں ٹاٹ بھی میسر نہیں ہونے دیے غریب مزید غربت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور پھر اپنی غربت مٹانے اور روٹی کھانے کے لیے معصوم بچوں کو کام پر لگا دیا نسل درنسل غربت اور جہالت کی زندگی گذارنے والوں سے اب ہم بھلائی اور خیر کی امید کیا رکھیں جن لوگوں نے اپنی غربت کی پرواہ کیے بغیر دن رات جانوروں کی طرح کام کیا خود لااعلاج بیماریوں کا نشانہ بنے مگر اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا مگر وہی بچے جب کسی نہ کسی طریقے سے ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
پھر انہوں نے اپنی سابقہ کسریں نکالنا شروع کردی ان کی زد میں جو بھی آیا بچ کر نہ جا سکا پھر ایک دور آیا کہ اس وقت کے وزیر اعلی غلام حیدر وائیں نے ہر سرکاری دفتر کے ہر کمرے میں یہ لکھوادیا کہ رشوت لینا جس کا کام ذلیل کمینہ اس کا نام مگر اس سارے لکھے ہونے کے باوجود ہماری بے حسی اور اپنے اندر کا مردہ انسان اسی بورڈ کے نیچے بیٹھ کر مک مکا کرتا رہا اور آخر کا ر اب ہمارے زہنوں میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے میں پیسے دیے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اور جس کا اگر کوئی کام کسی ادارے میں ہو تو اس کام والے کو بھی اس وقت تک تسلی نہیں ہوتی جب تک کہ وہ کچھ نہ کچھ رقم متعلقہ افسر تک نہ پہنچا دے یہ حال پاکستان کے تمام محکموں کا ہے۔
Jail
اکثر محکمے ایسے بھی ہیں جہاں پر سرکاری ملازم ڈیوٹی دینے کے لیے نہیں بلکہ اپنی اپنی ڈیلیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آتے ہیں میں نے اپنے پچھلے کالم میں جیلوں کے متعلق لکھنے کا کہا تھا جہاں پر کرپشن اپنے عروج پر ہے جیلیں جو مجرموں کی اصلاح کے لیے ہوتی ہیں کہ اگر کوئی کسی جرم کا ارتکاب کربیٹھے تو وہ جیل میں آکر اپنی اصلاح کرلے اور جب وہ جیل سے باہر نکلے تو ایک ذمہ دار شہری ہو مگر ہماری جیلوں کا قاعدہ قانون ہی نرالہ ہے یہاں پر آکر ایک معصوم اور بے گناہ شہری بھی جب باہر نکلتا ہے تو وہ اچھا خاصہ اور مانا ہوا بدمعاش ثابت ہوتا ہے اسی لیے تو جیلوں کو جرائم کی یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے جہاں پر ایک سے بڑھ کر ایک پروفیسر موجودہے اور اکثر ایسے ایسے ڈان بھی جیلوں میں بند ہیں جو اپنے کروڑوں کے کاروبار کو جیل کے اندر سے ہی کنٹرول کرتے ہیں۔
اس تمام کھیل میں جیل کا عملہ بھی شامل ہوتا ہے جیلوں میں پیسے والے مجرم کو سب آسائشیں باآسانی دستیاب ہوتی ہیں انکی ملاقاتیں بھی وی آئی پی انداز میں جبکہ ایک غریب اور بے سہارا مجرم کو جیل کے اندر بھی جہنم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سے ملاقات کے لیے آنے والے لواحقین کو بھی جس کرب سے گذرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف وہ ہی لگا سکتے ہیں کیونکہ جیل کے اس راستہ پر ہی پولیس کی وردیوں میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں جن کا کام عوام کی عزت نفس کو بری طرح مجروع کرنا اور انکی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنا ہے اور تو اور کسی بھی پولیس والے کی زبان پر شائستگی برائے نام بھی نہیں ہوتی جیسے جیسے ملاقاتی آگے بڑھتا ہے۔
ویسے ویسے اس کے صبر کا امتحان بھی شروع ہو جاتا ہے جیلوں میں لوٹ مار کا جو اب سما بندھا ہوا ہے وہ اپنے پچھلے تمام ادوار کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کررہا ہے اور مجال ہے کہ کسی بھی سرکاری افسر اور ذمہ دارعہدے دار نے اس طرف توجہ دی ہوہر کوئی اپنے سر سے وزن اتار کردوسے کے سر میں ڈال رہا ہے اپنی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کوتیار نہیں جیلوں کے اندر ملازمین اور قیدیوں کے درمیان اس وقت پیسہ کمانے کی ایک غیر اعلانیہ جنگ چل رہی ہے ہر بارک ٹھیکہ پر ہے اور اس ٹھیکہ میں وہاں کے ٹوری قیدی برابر کے حصہ دار ہیں جو خود بھی کماتے ہیں اور کما کر اوپر بھی حصہ پہنچاتے ہیں اس وقت تقریبا ایک معمولی سے معمولی ملازم سے لیکر اعلی سے اعلی عہدے دار تک اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔
جس کا جتنا ظرف ہے اسی کے مطابق کام چلا رہا ہے جیلوں کی بے تحاشا کمائی سے وارڈر ،ہیڈر وارڈر ،اسسٹنٹ ،ڈپٹی اور سپرنٹنڈنٹ سمیت اوپر تک عیش وعشرت میں زندگی گذار رہے ہیں جائیدادیں اور بنک بیلنس میں دن بدن اضافے نے ان افسران کی گردنوںمیں سریا فٹ کردیا ہے اور اگر یہ بھی کہا جائے کہ آج کے یہ جیل افسران رعونیت میں فرعون بنے بیٹھے ہیں تو بے جا نہ ہوگا ان سب حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے مزدوروں کے عالمی دن پر انکی طرف سے ایک مظاہرے کے دوران یہ نعرہ بڑے زور شور سے لگایا جارہا تھا کہ میرا ملک بچا لے اے مولا بہت پر اثر لگا اور دل سے اب یہی دعا نکلتی ہے کہ میرا ملک بچا لے اے مولا