بنو امیہ کا ایک جرنیل ، ظالم اور سفاک ، سخت گیر گورنر کہا جاتا ہے کہاسی کے ایماء اور حکم سے قران مجید میں اعراب لگائے گئے تھے ۔فصیح اللسان تھا۔ حکومت کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں اس کا بڑا حصہ رہا ۔ اس نے 173ھ میں مکہ کا محاصرہ کیا جو سات ماہ تک جاری رہا اور کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے ۔ اُس وقت وہاں حضرت عبداللہ بن زبیر نے پناہ لے رکھی تھی ۔جنہں اس نے شہید کر وایا ۔ یہ واقعہ اکتوبر 692ء کا ہے جس میں دس ہزار سے زائد مسلمان قتل ہو گئے تھے۔
مکمل نام ابو محمد حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقیل تھا۔ طائف میں پیدا ہوا ، وہی اس کا پرورش پوری ہوئی ۔ حجاج بن یوسف طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیبسے تعلق رکھتا تھا ، ابتدائی تعلیم و تربیت اس نے اپنے باپ سے حاصل کی۔ جو ایک مدرس تھا ۔ حجاج بن یوسف کا بچپن سے ہی اپنے ہم جماعتوں پر حکومت کرنے کا عادی تھا۔ تعلیم سے فارغ ہوکر اس نے اپنے باپ کے ساتھ تدریس کا پیشہ اختیار کیا لیکن وہ پیشے پر قطعی مسلمان نہ تھا اور کسی نہ کسی طرح حکمران بننے کے خواب دیکھتا رہتا تھا ۔ بالاآخر وہ طائف چھوڑ کر دمشق پہنچا اور کسی نہ کسی طرح عبدالملک بن مروان کے وزیر کیا ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وزیر نے جلد اس کے انتظامی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اسے ترقی دے کر اپنی جاگیر کا منعظم مقرر کر دیا۔
ایک چیز جس کو وزیر سے شکایت رہتی تھی اس کی سخت گیری تھی لیکن سخت گیری کی وجہ سے وزیر کی جاگیر کا نظام بہت بہتر ہو گیا تھا۔اتفاق سے عبدالملک کو اپنی فوج سے سستی اور کاہلی کی شکایت پیدا ہوگئی اور اس نے ایک محتسب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ وزیر نے حجاج بن یوسف کا نام پیش کیا لیکن وضاحت کر دی کہ آدمی سخت گیر ہے اس لئے وہ اس کے افعال کے لئے جواب دہ نہیں ہوگا ۔ اسی طرح حجاج عبد الملک کی فوج میں شامل ہو گیا۔ اس حیثیت سے اس نے عبدالملک کی خوب خدمت کی اور اموی فوج اس سے دہشت کھانے لگی۔
Hajaj Bin Yosaf
یہاں تک خود وزیر کا دستہ بھی اس کی سخت گیری کا شکار ہو ا ۔ حالانکہ وہ خود کئی سال انھیں میں شامل رہا تھا ۔ عبدالملک نے جب عراق پر حملہ کیا تو مصعب بن زبیر کے خلاف اس کے سخت اقدامات نے عبدالملک کو قتل کر دیا کہ حجاج اس کے کہنے پر کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے اور اس کے لئے اخلاقی و مذہبی حدود عبور کرنا کوئی مشکل نہیں۔مکہ پر حملہ: عبداللہ بن زبیر اس وقت مکہ میں پناہ گزیر تھے ۔ اور عبدالملک کو ان کی حکومت ختم کرنے کے لئے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو عبداللہ بن زبیر کا خاتمہ کر سکے ۔ چنانچہ حجاج بن یوسف کو اس مہم کا انچارج بنا دیا گیا۔
اس نے مکہ کی ناکہ بندی کرکے غذائی بحران پیدا کر دیا اور سنگباری کی۔ جب شامی خانہ کعبہ کی حرمت یا عبداللہ بن زبیر کی اخلاقی اپیلوں کی وجہ سے ہچکچائے تو حجاج بن یوسف خود سنگباری کرتا تھا ۔ اس مہم میں اس نے ابتدائی سفاکی کا مظاہرہ کر کے عبداللہ بن زبیر کو شہید کر ڈالا ۔ اور ان کی لاش کو کئی روز تک پھانسی پر لٹکائے رکھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس حجاز کا گورنر کر دیا گیا ۔حجاز کی گورنری حجاج بن یوسف کو گرفتار حجاز اس لئے بنایا گیا تھا کہ وہ اموی اقتدار کو اس مقدس سر زمین میں مستحکم کر ڈالے چنانچہ کچھ دیر تک مکہ میں مقیم رہا۔ اس نے ہر اُس شخص کو قتل کروا ڈالا جس سے اموی اقتدار کے خلاف زبان کھولنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ اس کے مظالم نے عوام کے حوصلے پست کر دیئے اور اموی غلامی پر رضا مند ہو گئے۔
مکہ کے بعد مدینہ کی باری آئی ۔ حجاج بن یوسف وہاں پہنچا تو صحابہ زادوں اور تابعین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ۔ اس نے اہل مدینہ کو جمع کر کے ایک زور دار تقریر کی اور انھیں عبدالملک کی بیعت کرنے پر آمادہ کرنا چاہا تاہم مدینہ خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے مخالفت بھی نہ کی لیکن کسی نے بیعت بھی نہ کی۔ حجاج نے انھیں تین دن کی مہلت دے کر رخصت کر دیا لیکن ساتھہی قتل و غارت کا مشغلہ شروع کر دیا لوگ اس کے جورستم کے واقعات سن چکے تھے اور واقعہ حرہ انھیں ابھی بھولا نہیں تھا اس لئے انھوں نے عبد الملک کی بیعت کر لی ۔ حجاج نے معز زین کی ایک فہرست تیار کر ڈالی اور ان سب کو یکے بعد دیگر طلب کر کے بیعت لی جسنے اموی حکومت پر تنقید کی اس کی گردن اڑا دی۔ دو ماہ تک اس کی بریریت کے بھر پور مظاہرے ہوتے رہے۔بالاخر اس مقدس بستی کے باشندوں سے قیامت ٹل گئی اور حجاج کا تبادلہ عراق کر دیا گیا۔