آج کی دنیا میں ہر جگہ انصاف کا بہت چرچا ہے بائیس برس قبل یہ افسانہ لکھا،نومبر 92 ء کو قومی ڈائجسٹ لاہور میں شامل تھا جب پاکستان میں بھی انصاف دہلیز تک پہنچانے کا شور و غوغا تھا زمین پر جب پہلی لڑائی ہوئی اُس میں مجھے قتل کر دیا گیا ، کمزور تھا انتقام نہ لے سکا ،انتقام کی آگ میں جلتا ہوأ زبردست پکار لئے میر ا لہو زمین کی ابتداء سے انتہا تک پھیلتا چلا گیا اور میرا بدلہ کوئی نہ لے سکا اور نہ خود، اور صدیو ں تک انتقام کے شعلے فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرتے رہے۔
پھر جب زمین میرا وطن اور غار میرا مکان بنا تو انتقامی جذبات میں اور شدت آگئی تو بھی مجھ میںوہ طاقت نہ تھی کی میں ظالم سے بدلہ لے سکوں،اِس جنگل کا سیاہ قانون جس کی لاٹھی اُس کی بھینس روئے زمین پر چلتا رہا۔ تب میں زور دار رعد کی کڑک کی طرح گرجا کہ زمین پر گویا بھونچال آگیا تب تمام نحیف و نزاراہل زمیںمیری طرف بڑھے ایک اژدھام جمع ہوأ،اور ایک ہی گونج تھی ہم اب ظالم سے اپنے خون کا حساب لیںسکیں گے،ہم ایک جم غفیر ہونے کے بھی کمزور تھے کے ظالم کے پاس جنگل کے قانون کی لاٹھی تھی۔
اس لئے میں اور میرے ہزاروں ساتھی ہمیشہ کے لئے خاموش کر دئے گئے اور پھر خاموشی چھا گئی ہزاروں صدیوں تک یہی ظالم خاموشی رہی اور میں اپنے ہم نواؤں کے ساتھ کوہلوکے دو پاٹوں پڑتا رہا وقفے وقفے کے بعد میں اور میرے کئی ساتھی یہ کوشش کرتے رہے کہ اس جنگل کے قانون کی باڑ توڑ دیں،مگر اِس مضبوط باڑ کو توڑنے میں ہر بار ناکام ہوتے رہے ،اور پھر اک زمانہ آیا جب سفید جبہ پہنے کچھ لوگ آتے رہے اوراپنی دلآویز میٹھی سریلی زبان میں کہتے تم لوگ یونہی پریشاں ہوتے ہو تمہارا مقدر یہی ہے۔
کہ تم صبر شکر کرو آنے والے دنوں کا انتظار کرو ،میں تو اُن کی زبان سمجھ گیا پر وہ میری بولی نہ سمجھ سکے ،کاش وہ میری بولی بھی سمجھ جاتے . پھر انہوں نے مل کر چند اصول و ظابطے ترتیب دئے جن میں کچھ نہ کچھ میری دل جمعی تو ہوئی اور وقتی طور پر میرا جذبہ انتقام جس میں انتہا کی شدت پیدا ہوچکی تھی ماند پڑ گیا لیکن دوسرے ہی لمحے میرے ہاتھوں میں خوبصورت کنگن پہنا دئے گئے اور کان بھی چھید کر ایک خوبصور ت چھلا پہنا دیا گیا۔
اب میں کیا کر سکتا تھا میری آزادی اور آواز دونوں ہی سلب کر لئے گئے تھے ،اب اپنے آقاؤں کی خوشنودی ہی میرا مقدر تھی اور ان کے حضور جھک کر سلام میرا فرض !صدیوں کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب مجھ جیسے لوگوںکی تعداد بڑھنے لگی اور زمین سکڑنے لگی تب یہ خوراک کے زرائع تلاش کرتے ہوئے پھیلنے لگے اور ملکیت کے انفرادی قانون نے جنم لیا پھر بھی طاقت ور کے ہاتھ مضوط تھے ،جیسے چاہتا جو چاہتا وہی کرتا اور میں میں پھر اپنی دھن میں اپنی راہ چلتا رہا اور صدیاں بیت گئیں۔
Poor Man
پھر آہستہ آہستہ صدیوں کی تاریکی جو میرے چاروں طرف پھلی ہوئی تھی چھٹنے لگی ۔ایک مدھم اور پھیکی روشنی کا ہالہ میری طرف بڑھنے لگا میں نے قریب جا کر دیکھا یہ فریب تھا وہاں تو وہی صدیوں پر پھیلا گھپ اندھرا تھا اور یہی تاریکی میرا مقدر تھی ،مگر میں پھر بڑھا اور اس تاریکی کا طلسم توڑنے کے لئے ایک نئے ولولے اور جذبہ سے جد و جہد شروع کی میری آواز میں رعد کی گرج تھی کہ زمین کی انتہا ہل گئی سب لوگ ہاں سب جو کمزور تھے میری طرف بڑھنے لگے۔
میں نے نہائت سریلے لفظوں میں،اِس خوبصورت کنگن اور کان میں پڑے چھلے کی کہانی سنائی تب سب لوگ جھک گئے اور میرے ساتھ مل کر ظالم کے خلاف نعرہ لگایا کہ ایک زلزلہ آگیا ظالم کے محل میں ارتعاش پیدا ہوأکہ اس کے درو دیوار ہلنے لگے سب لوگوں نے ہاتھوں کے کنگن اور کان میں پڑے چھلے اتار پھینکے ہم ان کے نغیر ہی زندہ رہیں گے اور اپنے بعد آنے والوں کو ان کے بغیر زندہ رہنے کی نوید دیں گے۔
انتقام کے پھیلے ہوئے خون کی باس ہر ایک نے محسوس کی تو پکار اُٹھے انتقام انتقام مگر نہیں ہمیں بھی صرف طاقت چاہئے جو آج تک صرف ظالم کے قبضہ میں ہے اور پھر اب ہم سب نے مل کر عہد کیا کہ اپنا قانون بنایا جائے گا اور پھرایسا ہی ہوأ اور اسے جمہور کا نام دیا گیاتو اگر میں تنہا اِس طاقت سے ٹکر لیتا تو ماضی کی طرح پھر سے تھپکی دے کر کر سلا دیا جاتا لیکن اب کی بار اپنے ذہن کے گوشوں کو کھولااور خلیوں کی مدد و رانمائی سے طاقت ور کا مقابلہ کروں گا۔
چنانچہ تمام چھوٹے بڑے خلئے ساتھ چلنے کو متفق ہووے اور اک نئی صبح کا آغاز جس کے لئے ہزاروں صدیاں تپتے صحراؤں اور اندھیرے غاروں میں بسر کیں،لیکن پھر بھی ایک سایہ تھا جو میرے ساتھ ہی رہا اور جب میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتب اقتدار کے مسحور کن نشہ ہی میں سب کچھ اور اپنا ماضی بھی بھول گیاْتب ایک اور فرب کاآیا اور اُس نے سنہری سکوں کی جھنکا کا ایک اچھوتا نغمہ سنایااور میں سحر زدہ ہو کر بے خود ہوگیا اِس نے میرے مرقد کی زمین کو مزید بڑہا دیا ،اور پھر چند سائے میری طرف بڑھے یہ وہی سفید جبہ پہنے سائے جو کبھی کبھی میرے ساتھ کچھ دیر کے لئے رہتے۔
دوران سفر مجھے تسلیاں بھی دیتے وہ اس مرتبہ ایک اور خوشخبری سنانا چا ہ رہے تھے اور کہہ رہے تھے ،آج سے تمہاری سیہ بختی کا دور ختم ہو رہا ہے اور خوش بختی کا دور شروع ہو رہا ہے خوشی کے نغمے گاؤ خوشیا ںمناؤ کہ تمہارے لئے بڑا سنہرا وقت تیزی سے آ رہا ہے ۔بلکہ دروازے پر ہے جس میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی ،اور میں اِس دل نواز مسحور کن آواز سے ہمیشہ کئے لئے میٹھی نیند سو گیا ،اور صدیا ںبیت چکی کہ پھر کسی نے آکر مجھے جھنجوڑا اور میں خواب ِغفلت سے یکبارگی جاگا۔
مجھے کہا جا رہا تھا ہوش میں آؤ جاگو انتقام لینے کا وقت آگیا ہے ،مگر میں تو آج بھی کم زور ہوں ؛ ہاں تو کمزور ہے مگر تیرے اندر ایک قوت ہے جس سے تو نابلد ہے وہ تیری رائے،اور میں پھراُس پر فریب نعرے کی زنجیروں میں جکڑدیا گیا …اور میں پھر اقتدار کی تلاش میں دوڑا کہ میرے اندر صدیوں سے سویا ہوأ انتقام پوری قوت سے میرے اعصاب پر سوار تھا جاگ چکا تھا مگر ہر بار جرس کی آواز دور ہی دور ہٹتی جا رہی تھی اور میں سر پٹ اِس اندھیرے نگر میں جہاں ہر طرف پتھر ہی پتھر تھے کچھ تلاش کر رہا تھا مگر میں کیا تلاش کر رہا ہوں وہ سب تو سراب ہے جس حسین صبح کی نوید سنائی گئی تھی۔
Weak Man
ایک بار تندرست و توانا اور کمزور خلیئے جمع ہوئے اور مجھے تسلی دی کہ اب تم گھبراؤ نہیں تمہارا انتقام لیا جائے گا اور تمہیں اقتدار میں بھی جگہ ملے گی فقط تمہاری اُس آواز جو صدیوں سے تمہارے اندر چھپی ہے کی ضرورت ہے اور میں نے اپنی رائے اُن کے حق میں سنا دی اور ایک بار اُنہوں نے میرے جذبہ انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مجھے بتایا کہ اب اِس کا خوبصورت نام اِنصاف ہو گا اور اِس کے حصول کے لئے تمام ضروری اقدامات بھی ترتیب دے دئے گئے ہیں اور تم بے فکر ہو کرلمبی تان کر پھر سو جاو مگر پھر کیا تھا۔
میں اِس اِنصاف کی تلاش و جستجومیں نکلا صدیوں کی سر گردانی کے بعد ایک سُہانی صبح مجھے گجر کی مدھم سریلی آوازسنائی دی اور میں سرپٹ اُس آواز کی سمت بھاگا کہ جا کر دیکھوں کیا ہے اور کیا ہو رہا ہے اور مجھے یہاں کیا ملے گا اِس جستجو وتلاش میں وہاں پہنچادیکھا تو یہ ایک کلیسا تھا ،جِس کا گھڑیال ایک سفید جبہ زیب تن کئے شخص بجا رہا تھا بجاتے بجاتے اُس کی کمر دوہری ہو چکی تھی اور بظاہر وہ بہت ہی تھک چکا کہ یہ گھڑیال وہ کب سے بجا رہا ہے کہ اہلِ زمیں کا ایک جم غفیر وہاں پہنچ چکا تھا اور چہ مہ گویاں جاری تھی مگر گھڑیال اب بھی بدستور بجے جا رہا تھا۔
اِسے تو اب خاموش ہو جانا چاہئے تھا مگر وہ تو مسلسل بجایا جا رہا ہے آخرش سفید جبہ میں سفید ریش شخص آتا ہے اور گھڑیال کی رسی کھینچنے والے شخص کو کہ اس وقت تک اُس کی کمر دہری ہو چکی تھی گھڑیال بجانے سے روکا اور چلا کر پوچھا رک جاؤ بتاؤ کون مر گیا جس کی موت کا اعلان کیا جا رہا ہے اور پھر گھریال کی آواز جو ،مدتوں سے گونج رہی یکبارگی خاموش ہو گئی اور وہ شخص سیدھا کھڑا ہوأایک سرد آہ ؛! لی اور کہا سُنو ! ائے اہل ِ زمیں !سُنوکل قاضئیِ شہر نے سونے کے چند چمکتے سکوں کے عوض اِنصاف کو سرِبازار قتل کر دیا ہے۔
میں اسی کی موت کا اعلان کر رہا تھا ،آؤ مل کر اِس کی آخری رسومات ادا کریں کہ کل پھر اِس کی تلاش میں کوئی مارا مارا نہ پھرے میںنے یہ منظر جو انتہائی خوفنا ک تھا دیکھاچکر ا کر گرا اور مدتوں وہیں پڑا رہا اور جب مجھے ہوش آئی تو دیکھا انصاف کا لاشہ وہیں پڑا تھا .. آہ ! انصاف صدیوں کے بعد ملا وہ بھی اُس کا لاشہ وہ تو اب مر چکا ہے ،اور استحصالی قوتیں پھر سے ایک جھنڈے تلے جمع ہو چکی ہیں اور میرے سامنے پھر سے ایک مشکل کھڑی تھی ہر ایک نے اپنے حصے بخرے کے مطابق میرا استحصال شروع کر دی۔
میں آج بھی ان کے لئے تختہ مشق ہوں اور وہ سب بھوکے گدھ کی طرح میرا گوشت نوچ رہے اور اس طرح کھا رہے ہیں جیسے مدتوں کے بھوکے ہوں ،اور میںاُ س متعفن لاشے کو جس سے سڑاند آ رہی تھی، تو بھی میں نے اُسے اپنے کندھے پر اُٹھایا …آج پھر وہی سفید جبے میں ملبوس سائے مجھے تسلیاں دے رہے اور شائد وہ میری آواز اور میری بولی کا مفہوم سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں انصاف مر چکا ہے اُس کا لاشہ کندھوں پر اُٹھائے لوگوں کو دکھا رہا ہوں، اور خوشی سے خود کو تسلیاں بھی خود ہی دے رہا ہوں کہ اب تو انصاف اور اِس لاشے کو اُٹھائے بہت خوش تھا کہ اب تو انصاف میری دہلیز تک پہنچ چکا ہے۔ تحریر : بدرسرحدی