اس وقت پاکستان کی سیاست میں ایک لفظ ” حق ” ہے جو چاروں طرف موضوع بحث بنا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو؟ کیونکہ عام انتخابات پانچ سالوں بعد آ یا ہے اور گیارہ مئی 2013ء کو لائونج ہونے جا رہا ہے۔ اس لئے ” حق ” پر بحث اور دعویٰ ہونا فطری عمل ہے اور ہونی بھی چاہیئے، کیونکہ ”حق ” حق ہے اس لئے بھی بحث ضروری ہے۔ہر سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ آزادانہ سیاسی مہم جاری رکھ سکے،اور آزادی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے، مگر کئی جماعتیں ایسی ہیں جنہیں آزادی نصیب نہیں ہو پارہی کیونکہ وہ بم دھماکوں کی زد میں ہیں۔ کل بھی عزیز آباد بلاک 8میں دو بم دھماکوں نے بربریت کا ایسا کھیل کھیلا کہ جس سے آزادیٔ حق کا تسلسل ماند پڑگیا۔الیکشن کمیشن اور نگران حکومت بشمول سیکوریٹی اداروں کے کوئی بھی اس سلسلے کو روکنے میں کامیاب نہیں رہا۔
اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو یہ لوگ اس طرف Sincereہیں ہی نہیں جبھی تو معاملات الجھتے جا رہے ہیں۔یا پھر یہ اپنی کوشش تو کر رہے ہیں مگر دشمنوں کے ہاتھ کافی لمبے ہیں جن کی پہنچ میں یہ ادارے ہیں ہی نہیں۔دوسری طرف الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کراکر اُن سب کو حق دیناچاہتاہے جو جن جن کا حق ہے، مگرکیاکہنے ہمارے مؤدب فخرو بھائی کاکہ یہ حق بھی ان کے پاس صرف زبانی اور بیان بازی تک ہی محدودہے۔اور شفافیت کہیں دکھائی نہیں دیتی،پہلے بغیر سینسس کے حلقوں میں ردّ و بدل کر دیاگیا ، اور اب دھماکوں پر کنٹرول نہیں ہو رہا ایسے میں شفافیت کہیں معدوم دکھائی دیتی ہے۔
”حق ” تو آنے والے حکمرانوں اور موجود ہ حکمرانوں کا بھی ہے کہ وہ عوام بھلائی کے کام کریں، عوام کے مسائل حل کریں، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کریں، مہنگائی کا زور توڑیں، بے روزگاری کا قلع قمع کریں، عوام کو امن و سکون فراہم کریں، مگر انہوں نے اپنا یہ حق ابھی تک استعمال ہی نہیں کیا ، کیونکہ اگر استعمال کیا ہوتاتو آج عوام ان تمام مسائل کا شکار نہیں ہوتے۔ویسے بھی جمہوریت میںکسی کوبھی ”حق ” اس وقت ملتا ہے جب اس قوم اور تنظیم کے سر آپس میں مربوط ہوں، وہ قوم، وہ جماعت، وہ تنظیم اور وہ ادارہ ٹکڑوں میں بٹا ہوا نہ ہو۔بصورتِ دیگر ”حق ” کا ملنا تو دور کی بات، اُلٹے اس قوم کا قسطوں میں تحس نحس جاری رہتاہے۔
Allama Mohammad Iqbal
اس قسم کی باتیں بھی آج کل زبانِ زدِ عام ہیں کہ ”حق ” مانگنے سے نہ ملے تو چھین لینا چاہئے، مگر اس کے لئے بھی تو اتحاد ضروری ہے، جس کو علامہ محمد اقبال کے زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں: جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گناکرتے ہیں تولا نہیں کرتے مگر جب ایک طائرانہ نظر اُن لیڈران پر ڈالاجائے جو آج کل مسلسل عوام کو اُن کا ”حق ” دلانے کی باتیں کر رہے ہیں ۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ جس ”حق ” کی بات وہ آج کر رہے ہیں وہ تمام مسائل میں تو عوام بہت پہلے سے ہی گھری ہوئی ہے تو یہ ”حق ” آپ نے پہلے کیوں نہیں دیا۔کیا ان کا یہ ”حق ” واقعی عوام کا نہ تھا۔کیا ان کو ان کا ”حق ” دلانے کیلئے آپ نے کبھی خلوص نیت سے کوشش کی؟ کیا آپ کے ارادے اور عزائم ان کو ان کا ”حق ” دلانے کے لئے بلند ہوا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اس ترقی یافتہ دور میں جن لوگوں کے ”حق ” کی بات کر رہے ہیں۔
انہیں اپنا سیاسی آلہ کار بنانا چاہتے ہیں اور بھولے بھالے عوام کو اس ترقی یافتہ دورمیں بھی آپ احمق سمجھنے کی احمقانہ حرکتیں کر رہے ہیں؟ یہ اور ان جیسے ہزاروں سوالوں کا جواب جب تک آدمی کو نہیں مل جاتا، تب تک نہ اس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے اور نہ ہی ذہن۔اس وقت تک آپ لوگوں کو قدم آگے بڑھانا بھی نہیں چاہیئے اور نہ ہی ”حق ” دلانے کی باتیں کرنی چاہیئں جب تک آپ کی نیت میں خلوص شامل نہ ہو جائے۔آج الیکشن کمیشن کے ذمہ دار افراد یہ بیان دے رہے ہیں کہ امن و امان کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے ہماری نہیں،بجا فرمایا جناب نے، مگر آپ کی بھی اس سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں تو بنتی ہی ہیں۔
Pakistan
نگرانوں کے بارے میں کیا کہنا کہ وہ حکمران بھی ہیں اور امن و امان بھی بحال نہیں کر رہے۔یوں ان کے لئے تو صرف یہ مثال ہی کافی ہے کہ: ” گُڑ کھا کر گلگلے سے پرہیز کرنا چاہتے ہیں” نگران عوام کو توبے وقوف بنانے کی کوشش کر ہی رہے ہیں ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ مرغی اور انڈے دونوں کھاتے رہے اور انہیں شفافیت کا چارہ بھی ملتا رہے۔کیا یہ ممکن ہے؟ یقینا ہر فرد بشر ہے جس کے اندر ذرّہ برابر بھی عقل و خرد ہوگی، وہ اس کا جواب نفی میں دے گا اور دینا بھی چاہیئے،کیونکہ ہر شخص یہ بات جانتاہے کہ بہ یک وقت دو کشتیوں کی سواری آدمی کو منزل سے کوسوں دور کر دیتا ہے۔
اہلِ پاکستان کے مفادات کا تحفظ ان کی اوّلین ذمہ داریوں میں شامل ہے کیونکہ جو پاکستان کے عوام کا مفادہے وہی پاکستان کا مفادہے۔یہ ایک ایسی مثال ہے، جس میں عمومی خصوصی مطلق ہیں، جسے ایک فلسفی ہی سمجھ سکتا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی سانپ کو دودھ پلائے اور سانپ اُسے نہ کاٹے۔جب یہ ممکن ہی نہیں تو میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ”حق ”کے نام پر سب ایک ڈرامہ کر رہے ہیں، جو ناممکن ہے کہ پوراکیا جا سکے۔جو بھی جماعت حکمران بنتی ہے اور بننے سے پہلے بھولی بھالی عوام کو سبز باغ دکھاتی ہیں اس میں آج تک وہ سب صد فیصد ناکام رہے ہیں، اس لیے اب انہوں نے ایک بہانہ ڈھونڈھ لیاکہ اب عوام کے حق کی بات کرنے جیت کر اسمبلی میں چلتے ہیں۔
اگر ہمیں وہاں ”حق نہیں ملاتو ہم عوام کو سمجھا دیں گے کہ ہمیں ہی ”حق ” نہیں ملا اس لئے ہم نے ترقی نہیں کی۔کیا عوام کا حافظہ اتنا کمزورہے کہ وہ ان سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ جب آپ کی حکومت قائم و دائم تھی تو اس حکومت میں آپ لوگ بھی قد آور شخصیات میں شامل تھے تو اس وقت آپ نے یہ پہل کیوں نہیں کی۔جس قانون یا مسئلے میں تبدیلی کی بات آج آپ کر رہے ہیں اس قانون اور مسائل میں تبدیلی اپنی حکومت میں آپ بہ آسانی کر سکتے تھے۔آپ لوگوں نے اُس وقت پاکستانی عوام کے ”حق ” کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھایا۔ترقی دلانے میں اگر مخلص ہوتے تو آپ ضرور کمر بستہ ہوتے نہ کہ بھولے بھالے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے اور نہ ہی عوام کے جذبات سے کھیلتے۔
Terrorists
پاکستان میں سیاست اتنی کار فرما ہے کہ ہر شعبہ حیات میں وہی غالب رہتی ہے جس سے خلوص ایمانداری جانفشانی مفقود ہے ہر ایک اپنی غیرذمہ داری کا جواز پیش کردیتا ہے لیکن یہ نہیں تسلیم کرتاکہ اسے جو کرنا چاہیئے تھا اس نے وہ نہیں کیا اس لئے کام بگڑ گیا۔ مرکزی وزیر داخلہ یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی تھریٹ ہیں۔ یا دہشت گردانہ واردات ہونے والی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کوئی معقول طریقہ اختیارکیوں نہیں کیا جاتاکہ دہشت گرد کامیاب نہ ہو سکیں۔آج ہر شخص اپنی غفلت کو دوسرے کی خطا ثابت کرنے ہی کی کوشش میں رہتاہے ایسے میں کہاں سے وقت آئے کہ وہ کوششیں ہوں جن سے عوام کو ہر طرح محفوظ رکھنا ممکن ہو سکے۔ہر دہشت گردانہ حملے کے بعد الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے خطا کار اپنی خطا تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔
دوسرے اسے خطا کار ثابت کرنے ہی میں صلاحیت ضائع کر دیتے ہیں اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو یہ جو دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ چلتا ہی چلا جا رہا ہے کب کا ختم ہو گیا ہوتا۔جبکہ ضرورت یہ ہے کہ دیکھا جائے کون کس کام پر مامور ہے اور وہ کیا کرتا ہے اگرہر شخص اپنی جگہ مستعد رہے ایمانداری سے کام کرے تو کسی کے لئے بھی کوئی تخریبی حرکت کرنا ممکن نہ ہو سکے لیکن ہم خود اپنی اصلاح نہ کرکے دوسروں پر الزام تراشی ہی کو حب الوطنی سمجھنے لگے ہیں ۔ آج بھی اصلاح کا طریقہ یہی ہے کہ ہمارے ذمہ جو کام ہے اسے ایمانداری ، محنت اور خلوص سے کرنا ہی حب الوطنی سمجھیں بس سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ورنہ کسی پر الزام عائد کرنا غصہ غضب کرنا کسی بھی طرح سود مند نہ ہوگا۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی