الیکشن ٢٠١٣،وسوسوں،خدشات اور امکانات ،بلکہ آخری وقت تک خوف کے سائے منڈلاتے رہے، دشت گردوں نے کھلی وارننگ دے رکھی تھی اے این پی ،ایم کیو ایم،کراچی ،کوئٹہ اور خیبر پختونخواہ اں کی ہٹ لسٹ پر ، بلکہ آخری دن بھی کراچی،کوئٹہ،خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق ٦٣ ہلاک اور ١٥٠ سے زائد زخمی ہوئے ۔ طوفانی بادل گرج رہے تھے ابھی برسا کہ ابھی خدا کا شکر ہے کہ آخری وقت مطلع صاف ہوگیا ۔ چیف الیکشن کمشنر کا عوام کے نام پیغام کہ آج ٦٠ فی صد عوام نے ووٹ کاسٹ کیا تو ملک کا مستقبل سنور جائے گا۔اور یہ ملکی تاریخ میں پہلی تبدیلی ہوگی بلکہ جو مزید تبدیلیوں کے لئے بارش کا پہلا قطرہ ہوگا۔
جس سے ملک کا مستقبل روشن اور عوام کا معیار زندگی بلند ہو گا ۔بے شک دھمکیوں اور خوف سے بے نیاز ہوکر ٦٠ فیصد سے زائد عوام نے اپنے اور ملک کے روشن مستقبل کے لئے ووٹ کاسٹ کیا ، ہارنے والے اپنی کار کردگی نہیں بلکہ دھاندلی کا واویلا کر کے اپنی شکست چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ، مگر سچ یہ کہ جیتنے والوں کو عوام نے بیلٹ کے زریعہ موقع دیا ہے انہیں مبارک باد دینے والے لمبی قطار میں لیکن مجھ جیسے لوگ کسی قطار میں نہ شمار میں بلکہ نہ تینو ں میں نہ تیرہ میں ، اور اب مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً ن لیگ پر یہ زمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ اِس وقت حاصل کردہ نشستوں کے حوالے سے بڑی جماعت ہے امید ہے۔
میاں صاحب اپنی دوسری ٹرم اور پی پی پی حکومت کے پانچ سالہ دور سے کافی کچھ سیکھ گئے ہیں اب وہ مینڈیٹ ضائع نہیں ہونے دیں گے اور کچھ نہیں دوہرائیں گے ، اور عوام کے اعتماد و امیدپر پورا اتریں گے گو کہ اُن کے لئے بے پناہ مسائل اور چیلنجزاور مشکلات ہیں تو بھی امید ہے کہ عوام کے بھر پور تعاون سے اپنی کل کی تاریخ بنائیں گے اللہ تعالےٰ نے ایک اور موقع دیا ہے دولت شہرت اُن کے پاس ہے اب اللہ کی مخلوق کی خدمت ،میں اللہ کی خوشنودی ہے ،اِس انتخاب کی خاص بات یہ ہے کہ عوام نے پی پی پی کے فریبِ سحر سے آزاد ہو کر بالغ نظری کا مظاہرہ کیا اورپانچ سالہ کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے اُسے تاریخ کی بد ترین شکست دی کہ قومی جماعت سکڑ کر علاقائی جماعت میں تبدیل ہو گئی جبکہ پی پی پی نے کاغذی کاروائی پر کروڑوں کی اشتہار بازی کی مگر عوام نے مسترد کر دیا۔
PPP
پی پی پی تو یہ خواب بھی دیکھتی رہی کہ لاہور کو لاڑکانہ بنائے گی مگر زرداری کی پالیسیوں سے خود ہی لاڑکانہ میں سمٹ گئی لاہور ہی میں بلاول ہاؤس تعمیر کیا گیا مگر شائد اب وہ مکیں کو ترسے گا ،بعض لوگوں کا خیال ہے نتیجہ غیر متوقع رہا ،لیکن نہیں اِن انتخابات کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو عین توقع کے مطابق ہے ہارنے والوںکے لئے نوشتہ دیوار تھا مگر وہ اس سچ سے آنکھیں چراتے رہے ،صدر زرداری بھی اِن انتخابی نتائج سے خاص طور پر پریشان ہیں وہ سمجھتے ہیں پارٹی راہنماؤں کی نااہلی اور غفلت سے ،اور رپورٹ طلب کی بھلا رپورٹ کیا کرے گی جب چڑیا ں کھیت ہی چگ گئیں ،جناب صدر خود پر برسو اور خوب کھل کر برسو جو کچھ پانچ برس میں بویا یہ اُسی کا پھل ہے۔
اگر ملک و قوم کے لئے کچھ کیا ہوتا تو ایسی عبرت ناک شکست نہ ہوتی ،قومی جماعت ہو اور پانچ برس تک حکمران بھی پھر ایسی شرم ناک شکست صدر صاحب تاریخ آپ کو زمہدار ٹھیرائے گی…. سوال ہے عوام نے اتنا سخت انتقام کیو ںلیا ظاہر ہے عوام کے انتقام کی پہلی ترجیح لوڈ شیڈنگ جو ١٨ گھنٹوں تک چلی گئی ،اور گندم جو عوام کی بنیادی ضرورت اور تمام اجناس کا محور کی قیمت تین سو سے بارہ سو تک لے گئے معاشی طور پر بھی ملک کے لئے کوئی قابلِ قدر کام نہیں کیا مہنگائی اسی حکومت کا کار نامہ ہے یہی کار گزاری تھی جس کا عوام نے ووٹ سے انتقام لیا ، ٢٠٠٢،٢٠٠٨ ،اور ٢٠١٣،یہ تیسرے قومی انتخابات تھے ، ان انتخابات میں عوام نے پختہ سیاسی شعور کا مظاہرہ ،عوام کی سیاسی اور ذہنی تربیت کرنے میں ہمارے میڈیا کا اہم کردار ہے اور عوام پارٹی اور شخصی سحر سے نکل کر ہوش میں آ گیا۔
Raja Parveez
اب کوئی محض اشتہار بازی سے اُسے مسحور نہیں کر سکے گا اور اب آئندہ ٢٠١٨ میں اُس کا سیاسی شعور مزید نکھرے گا جو جماعت بھی اُ سکا استحصال کرے گی اور وعدے ایفا نہیں کرے گی اُس کا یہی حشر کریںگے ، یہ آنے والی حکومت اور آئندہ کے لئے حکمرانی کے خوہشمند سیاسی لوگوں اور پارٹیوں کے لئے انتباہ بھی ہے ،راجہ رینٹل کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ وزیر آعظم رہے عوام سر آنکھوں پر بٹھائیں گے مگر عوام بھولے نہیں وہ اپنی آبائی نشت پر عوام کے انتقام کا نشانہ بنے ، اگر وہ راجہ ہیں تو آئندہ عوام کے سامنے کبھی نہیں آئیں گے جو اُن کے ساتھ ہوأ یہی کافی ہے ،سابق وزیر آعظم سید یوسف رضا گیلانی سے بھی سخت انتقام لیا ، ساڑھے چار سال تک عوام کو انگلیوں پر نچاتے رہے اور جب عوام کا وقت آیا انہیں بھی شرم ناک شکست سے دو چار کیا۔
تاہم ملتان میں پریس کانفرنس میں کہا ،کہ یہ انتخاب ٩٧ ء کی طرح کے انتخابات ہیں میں انتخابی نتائج کی زمیداری قبول کرتا ہوں ،ہم مستقبل کے مظلوم ہیں ،میڈیا مظوموں کا ساتھ دے ،ایک طرف تو یہ سچ کہہ کر اپنی ناکامی قبول کی اور ساتھ ہی مظلوم بھی بنے اور کہا کہ یہ انتخابات ٩٧ء جیسے ہیں ،امین فہیم کا کہنا کے ہمارے منڈیٹ پر شب خون مارا گیا ہ۔
جناب ایسا نہیں عوام اب باشعور ہیں اپکی پانچ سالہ کارکردگی کا نتیجہ ہے اپنے گریباں میں دیکھیں عوام اور ملک کے لئے کیا ،وسیلہ حق،یا بینظیر انک سپورٹ پروگرام کے زریعہ دو چار لاکھ لوگوں کو بھکاری بنا دیا یہ تو کوئی کار نامہ نہیںتھا کاش اُن کے لئے روز گار کے مواقع پیدا کئے جاتے…. یہی نہیںاس کے ساتھ ق لیگ کو بھی رگڑا لگا عوام نے اُسے بھی مسترد کر دیا ہے،اچھا تھا اگر پرویز مشرف کو بھی پہلے عوام کی عدالت میں آنے دیا جاتا۔