پاکستان میں منافقت کی سیاست کا آغاز 14اگست 1947ء سے ہی شروع ہو گیا تھاجو آج تک جاری ہے پاکستان کے وجود میں آتے ہی اس وقت کے جاگیر دار سرمایہ دار جو انگریزوں کے خاندانی غلام تھے کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے اور پھر وہی سے ایسی مکروہ، گھنائونی اور منافقانہ سیاست کا آغاز ہوا کہ جسے ہم بابائے قوم اور قائد اعظم کہتے ہیں جس کے احسانات کا بدلہ ہم تو کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی نہیں چکاسکتی۔
اس وقت اگر بابائے قوم محمد علی جناح کا ساتھ انکی بہن جسے ہم مادر ملت کہتے ہیں محترمہ فاطمہ جناح نہ دیتی تو آج شائد پاکستان کا نام ونشان بھی نہ ہوتا کیونکہ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کو کسی بھی مقام پہ گرنے نہیں دیا اور دن رات انکی خدمت کرکے قیام پاکستان کو ممکن بنا دیالاکھوں اور کروڑوں انسانوں میں ہر کوئی لیڈر نہیں بن سکتا اگر اس مثال کو سامنے رکھا جائے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
تو یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ اگر قائد اعظم کو اپنی بہن کا سہارا نہ ہوتا تو آج ہم اس آزاد فضا میں سانس نہ لے رہے ہوتے پاکستان بن گیا تو منافقین نے بھی اپنے ڈیرے جمالیے جنہوں نے پاکستان کی ان بنیادوں کو کھوکھلا اور کمزور کرنا شروع کردیااور جنہوں نے اس ارض پاک کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے لہو کے نذرانے پیش کیے انکی قربانیاں بھی ان منافقین سے نہ بچا سکی اور آخر کار ان منافقین کاشکار ہم سب ہو گئے اس بات کو سوچتے ہوئے میرا دل خون کے انسو روتا ہے۔
ندامت اور شرم سے سر جھک جاتا ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اپنے آپ پر وہ ظلم کیے جو کوئی اور کرنے کی جرئات نہیں کرسکتا تھا ہمارے اندر موجود منافقین نے اپنا کھیل کھل کرکھیلا اور وہ بدترین دن بھی آگیا کہ جب ہم نے محترمہ فاطمہ جناح کی شکست پر بھنگڑے ڈالے اور مٹھائیاں تقسیم کی یہ محترمہ فاطمہ جناح کی شکست نہیں تھی بلکہ بحیثیت قوم ہماری بدترین تاریخی شکست تھی کہ ہم نے اپنے محسنوںکو انکے احسانوں کو بدلہ انکی ذلت کرکے دینا شروع کردیا تھا۔
اسکے بعد جو محب وطن تھے وہ خاموشی سے ایک نکرے لگ گئے اور جو بیرونی ایجنٹ تھے انہوں نے اپنے جال پھیلانا شروع کردیے کیونکہ محسنوں کو ذلیل کرنے کے بعد اب انکے راستے میں آنے والا کوئی نہیں تھا اور پھر ان ایجنٹوں نے کھل کر ملک دشمنی کے کھیل کھلیے جس کا خمیازہ آج ہم ہی بھگت رہے ہیں غربت،جہالت اور اندھیر نگری کا آج جو راج ہے اس کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں کیونکہ آج سے 60سال قبل اگر ہم اپنے اندر موجود ان غیر ملکی ایجنٹوں کو پہچان کر اسی وقت انکی چھٹی کروادیتے۔
تو آج کا پاکستان بلکل مختلف ہوتا ہر آنے والا سیاستدان پاکستان کو پیرس بنانے کے دعوے کرتا ہے اگر ہم منافقین کے دھوکے میں نہ آتے تو آج پیرس والے پاکستان کی مثال دیکر کہتے کہ ہم پیرس کو پاکستان بنا دیں گے مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے پاکستان کو بنانے میں ایک نسل نے تو پہلے قربانی دے دی ہے اب پاکستان کو ایک بار پھر پاکستان بنانے کے لیے مجموعی طور پر ہمیں سب کو ایک بار پھر قربانی دینا پڑے گی وہ بھی بغیر کسی بابائے قوم کہ اب ہم میں نہ تو علامہ اقبال ہے۔
Mohammad Ali Jinnah
نہ دن رات خدمت کرنے والی بہن فاطمہ جناح اور نہ ہی محمد علی جناح کے روپ میں کوئی عظیم بھائی ہے اب کے بار یہ سفر ہمیں تن تنہا ہی کرنا پڑے گاورنہ ہماری حالت پر تو پہلے ہی ترقی یافتہ قومیں ترس کھاتی ہیں اور ہر سال کروڑںڈالربطور امداد بھیج کر ہمیں زندہ رکھ رہی ہیں اور اسی امداد میں سے ہمارے حکمران اور عوام دونوں اپنا پنا پیٹ بھرتے ہیں اس بار ہونے والے الیکشن میں پھر عوام سے بڑے بڑے وعدے کرکے منافقت کی انتہا کی گئی۔
بھلا ایسے لیڈر کیا ہمارا فائدہ کریں گے جنہوں نے اربوں روپے کمیشن کھائی ہو نہ صرف اپنے پیٹ بھرے ہوں بلکہ لوٹ مار میں اور بھی کئی حصہ دار ہوں ان کے منہ سے پاکستان کی بھلائی کے منصوبوں کی بھڑکیں عجیب طرح کی احساس محرومی کا شکار کردیتی ہیں کہ ہمارے انہی سیاسی لٹیروں نے پہلے کسی کی گود میں بیٹھ کر سیاست میں لوٹ مار کی الف ب سیکھی اور جب اربوں روپے بنا لیے تو پھر عوام کی خدمت کا جذبہ انہیں سونے نہیں دے رہا۔
یہی وہی حکمران ہیں جو غریب عوام کے نام پر اور غربت کے صدقہ میں ایوان اقتدار تک پہنچتے ہیں اور پھر وہی حکمران سیکنڑوں محافظوں کے حصار میں غریب عوام سے دور ہوتے جاتے ہیں اگر کوئی ان نام نہاد عوامی نمائندوں کے پاس سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے پہنچ جائے۔
تو پھر سیاستدانوں کے روپ میں ٹھگ نما حکمرانوں سے تو کیا انکے چمچوں سے بھی ملاقات نہیں ہو سکتی اختیارات کا مرکز اپنی ذات کو رکھنے والوں سے ہم خیر کی توقع کیا رکھیں ہم نے تواب تک کافی سزا بھگت لی اللہ پاک ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرماکر ہماری آنے والی نسلوں کو ان منافقین کا شکار ہونے سے بچائے (آمین)