دانشور ! آج کا یا گزرےکل اُس نے رائج الوقت جمہوریت کی انتہائی خوبصورت لچھے دارلفظوں میں تعریف کی ہے،مثلاًموجودہ انتخابات میں جسطرح کے بیانات مسلم لیگ ن،پی پی پی پی ،پی ٹی آئی،مسلم لیگ ق،جمیعت علماء اسلام ،اے این پی وغیر ہ کی طرف سے بیانات اور پھر دانشورں کا اُن پر مرچ مصالحہ ..عام آدمی کو جب کوئی دوسرا سناتا ہے تو سننے والا پتھیرا سمجھتا ہے کہ اگلے ہی دن یعنی ١٢،مئی کو اُسے بھٹہ مالک سے آزادی مل جائے گی ۔تصور ہی میں یو ٹوپیا کے خیالی جنت بر زمیںکے جزیرے میں پہنچ جاتاہے جہاں ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی ،وہ چشم تصور میں دیکھ رہا ہے کہ اُس کے بچے بھی کار میں سکول جا رہے ہیں۔
اُس کی پتھیرن اچھے قیمتی لباس میں ہاتھ میں پرس لئے شاپنگ کے لئے کہ ..عین اسی وقت جمعدار کی کڑک گرجدار آواز سنائی دیتی ہے اوئے شہابو اُٹھ ملک صاحب آرہے ہیں ۔بچوں کو لگا کہ مٹی سوکھ رہی ہے اور وہ ایک دم اُٹھتا ہے چاروں طرف دیکھتا …جمعدار کی پھر آواز آتی ہے ‘اوئے شہابو کی ویکھ ریاں اے اوئے او خواب سی جو توں ویکھیا اے ”اور شہابو ہوش میں آگیا کندھے پر کسی رکھی بچوں کو ساتھ لیا کہ ماضی کی غلامی نے نیا پیرہن پہن لیا ہے…..اور جب یہی دانشور آمریت کے سیاہ کار نامے گنواتا ہے (خواص کو نہیں کہ وہ تو امریت اور جمہوریت کے کارنامے جانتا اور نہ ہی جاننے کی ضرورت ہے۔
وہ تو بوقت ضرورت کسی کے قدموں میں مطلب براری کے لئے بیٹھ جائے گا ، بلکہ یہ تو اُس عوام کو کہ جس کا مسلہ صرف شام کی روٹی ہے جبکہ اُسے نہ تو جمہوریت سے کوئی تعلق ہے نہ آمریت سے ،یہ تو ایک مخصوص طبقہ ہے جو آمریت سے خائف جسکی ضرورت جمہوریت ہوتی ہے جمہوریت کا کھیل صرف زاتی مفادات کا حصول نہ کہ عوام (دو پائے کیڑے مکوڑے)کی ضرورت ہے حالانکہ اِس آمریت سے عوام کا کوئی تعلق نہیں ..دانشور طبقہ خصوصاًآمریت کی سیہ کاریاں ، ایک صاحب ”لکھتے ہیں۔
Musharraf
آج پاکستان کے حالات کا زمہ دار امریکہ ہے ،سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نام نہاد ملزم یا مجرم اسامہ بن لادن کی تلاش کے نام پر پرویز مشرف کو اپنا معاون بنایا اور اپنے ناپاک کام کروائے جن کے اثرات آج بھی پاکستان کو کھوکھلا کر کے دیمک کی طرح کھا رہے ہیں ”یہ لوگ اصل صورت حال سے لا علم ہیں یا پھر قصداً حقائق کو چھپا کرعوام کو گمراہ کرتے ہیں یہ سچ کیوں نہیں کہتے کہ اصل میں افغانستان کے امیر المومنین ملا عمر زمہدار تھے ، جو اکام پرویز مشرف سے لیا وہ کام تو بحر ہ عرب میں کھڑے اپنے بحری بیڑے کے زریعہ بھی کرسکتا تھا یو این او ،کی حمائت حاصل تھی یہ لوگ لکھتے وقت سمجھتے کہ ہماری فوج ہی بے کار ہے۔
ایسے لکھنے والوں سے پوچھنا چاہئے تھا کہ اب کیا کریں ،میں اپنی فوج کو سلام کرتا ہوں کہ اُس نے بر وقت صائب فیصلہ کیا اور قوم کو بے وقت تباہ ہونے سے بچا لیا لیا ورنہ یہ میدانی گنجان آباد ملک کا حشر نشر ہو تا، افغانی عوام تو جان بچانے کے لئے بھاگ کر پاکستان آگئے پاکستانی بھاگ کر ،بھارت جاتے کہاں جاتے کبھی یہ سوچا کسی نے یہ نہیں سوچا ،جہاں تک درون حملوں کا تعلق ہے تو دشت گرد جو پاکستانی عوام کے بھی دشمن ہیں وہ گھروں میں آکر چھپتے اور نہتے عوام کو ڈھال بناتے ہیں اُنہیں روکئے ڈرون خود بند ہو جائیں گے ، اگر آپ اُن دشت گردوں کو نہیں روک سکتے تو خاموش ہو کر فوج کو اپنا کام کرنے دیں۔
میں اور آپ نہیں جانتے کیا کرنا ہے ،جس کا کام اُسی کو ساجے دوسرے کر یں تو…! یہ تو ضمنی سی بات ہے بات کر رہا ہوں امریت کی کہ یہ امریت کی،کیا 96ء سے99ء کا جمہوری دور،وہ بھی جمہوری لبادے میں امریت کہ میڈیا کا دور ہے کچھ بھی پوشیدہ نہیں سب کچھ ہی آن ریکارڈ ہے، کہ مخصوص طبقہ قومی وسائل قابض تھا، کیا 2008 ,،کا جمہوری دور تھا ملک اندھیرے میں ڈوبا رہا پاکستانی روپیہ شرناک حد تک بے وقعت ہو گیا ڈالر سو روپئے تک پہنچا امریت کے دور میں یہ پھر بھی 60روپئے سے اگے نہ بڑھا،بد ترین دشمن بھی کبھی سچ کہہ دیتے ہیں کہ معیشت راہ ترقی پر تھی۔
جمہوریت یا امریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں ہی عوام(دو پائے کیڑے مکوڑوں) کے لئے کھوٹے سکے ہیں،بادشاہت یا مطلق العنان حکمرانوں کا زمانہ جمہوریت میں کیوں اور کیسے بدلا شاطر اور چالاک لوگوں نے دیکھا باد شاہتیں نسل در نسل رہتی ہیں کیونکر اِن سے چھٹکارا پایا جائے جبکہ بادشاہ کے بارے میں کے وہ عوام کے ساتھ کیا کرے گا توریت میں سموئیل نبی کے صحیفہ پہلی کتاب باب آٹھ میں خدا نے بتایا کے باشاہ تمہارے ساتھ کیا کرے گا ،اب اِن شاطر لوگوں نے عوام کو جمہوریت کی رام کہانی سنائی اور بادشاہت کے خلاف تیار کیا یوں جمہوریت نے جنم لیا۔
Peopel
پھر بھی وہی لوگ جو اقتدار کے رسیا تھے آگے آئے عوام جہاں پہلے تھے وہیں آج جمہور یت کے دور میں بھی ہیںاِن کی حالت نہ بدل سکی اورنہ کبھی بدل سکے گی یہاں مغرب کی جمہوریت کی بات نہیں کہ وہ قومیں بہت آگے نکل چکی ہیں اور یہا صرف وسائل اکٹھا کرنے کا نام جمہوریت ہے ، آمریت نے جمہوریت کا منقش خوبصور ت لباس زیب تن کر لیاہے جس کے اندرآمریت سڑاند ہے، اب اِسے صاف و شفاف کرنے کی ضرورت ہے… اب سوال ہے عوام ، یہ عوام کون ہے اِس کی شناخت کیا اور کہاں رہتا ہے؟ ،کبھی کسی دانشور نے اس عوام کی جس کا چرچا صبح شام ہر محفل ،مجلس اور میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا میںہوتا۔
مگر کبھی اِن مجالس ،محافل یا ٹاک شوز میں اِسے نہیں دیکھا گیا،خصوصاً میڈیا میں بڑے صاحبِ فکر و دانش یہ بھی سیاسی عمائیدین کی طر ح مگر مچھ کے آنسوں بہاتے ضرور ہیں مگر اِن کا بھی اُس عوام ( جو حقیقتاً دو پائے کیڑے مکوڑے ہیں)سے اِس سے زیادہ کوئی تعلق نہیںکہ محض زیر بحث لایا جائے ۔ٹاک شوز میں بھی خواص ہی کو لایا جاتا اور اُن کے مسائل زیر بحث لائے جاتے ، الیکشن کے دور میں انتخابی گہما گہمی میں میاں نواز شریف ،عمران خان،بلاول زرداری بھٹو،سید منور حسن اور دیگر سیاستدان چاہتے ہیں اُن کے انتخابی نشان پر مہر لگائیں مگر کسی چوراہے میں اینٹیں تھا۔
پنے والے،کھیت کمی،گٹر میں اترنے والے،گو ،پر اینٹیں اور مصالہ لے جانے والے مزدور چلچلاتی دھوپ میں سڑک بنانے والے مزدور کو بلا کر پوچھا کے وہ اپنا حال بیان کرے کہ وہ کیا چاہتا ہے اُس کیا ڈیمانڈ ہے جبکہ آج ہر سیاسی راہنما نے اپنی ڈیمانڈ بتا دی کہ وہ کیا چاہتا ہے اور اسی پر تبصرے اور کالم پر کالم لکھے جاتے ہیں ۔ میں ہرگز نہیں سمجھتا کہ جو ٤٠ فی صد کی آبادی خطِ افلاس نیچے زندہ رہنے پر مجبوربتائی جاتی یہ عوام ہیں ۔اِس عوام پر بھی تبصرے،تجز ئے ا ور کالم لکھے جائیں اور کھل کھلا کر اُس کی تعریف و تشریح کی جائے،کیا کبھی وہ بھی بدل سکتا ہے ؟ تحریر: بدر سرحدی