مولانا حماد ظفر کچھ دنوں سے یہ نام موضوع گفتگو ہے۔ مدرسہ سے فضیلت حاصل کرنے والے اس ہونہار طالب علم نے سول سروسز میں کامیابی حاصل کر کے کارنامہ ہی کچھ ایسا کر دکھایا ہے کہ نہ صرف مدارس بلکہ معروف و مقبول یونیورسٹیوں کے طلباء میں بھی وہ گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ لیکن حماد ظفر کو یہ کامیابی یونہی حاصل نہیں ہوگئی۔ اس کامیابی کے پیچھے ایک طویل داستانِ جدوجہد ہے۔ حماد کی فیملی بُنائی صنعت پر انحصار کرتی تھی۔
یہی سبب ہے کہ ان کے خاندان میں تعلیم کے تئیں اتنا بیدار کوئی نظر نہیں آتا جتنا کہ حماد ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حماد اپنے خاندان میں پہلے گریجویٹ ہیں۔ موبائل پر گفتگو کے دوران انہوں نے اپنے مدرسہ کی تعلیم اور اس کے بعد دہلی آمد سے متعلق کا تذکرہ بھی کیا اور اپنی تگ و دو کی داستان بیان کی۔فی الوقت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ستلج ہاسٹل میں پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہے حماد ظفر کی مذکورہ کامیابی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے۔
انہوں نے سول سروسز کا امتحان اردو میں دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تفصیل سے بتایا اور کہا کہ ”جہاں تک اردو کا سوال ہے، تو اس زبان میں میٹریل کی کمی ہے جس کے سبب اس طرح کے امتحانات کی تیاری کرنا امر محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے انگریزی کتابوں اور رسالوں سے استفادہ کیا جس سے مجھے کافی آسانیاں میسر ہوئیں”۔ طلبا کے سامنے جہد مسلسل کی مثال بن چکے حماد اپنی اس کامیابی کا سہرا کریسنٹ آئی اے ایس اکیڈمی کے ڈائریکٹر اقبال خان اور استاد لیاقت انصاری کے سر باند ھتے ہیں۔
ان کی شفقتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”انہوں نے ہمیشہ میری رہنمائی کی اور کسی بھی مسئلہ سے نمٹنے میں میری حتی المقدور مدد کی۔ ان کی توجہ اور شفقت کا ہی نتیجہ ہے کہ میری راہیں آسان ہوئیں”۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر انسان کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اور استاد تو ہمیشہ سے ہی اپنے شاگردوں کے لئے راہنما ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں حماد ظفر کا اپنے اساتذہ کے تئیں شکریہ کا یہ جذبہ بھی قابل تحسین ہے۔
Pakistani Teacher
جدید دور میں جس طرح شاگرد اپنے استاد کا مضحکہ اڑاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں، ان کے لئے بھی حماد ظفر ایک مثال ہیں۔ ایسے ماحول میں یقینا اقبال خان اور لیاقت انصاری کا سینہ فخر سے پھول گیا ہوگا اور اپنے ہونہار طالب علم کی کامیابی نے انہیں بھی اتنی ہی خوشی دی ہوگی جتنی خود حماد کو حاصل ہوئی۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم آفتاب احمد منیری بھی اپنے سینئر ساتھی حماد ظفر کی کامیابی سے خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ ”مدارس کے طلباء کو حماد ظفر سے سبق حاصل کرنی چاہئے۔
یہ سمجھنا چاہئے کہ محنت و مشقت اور آگے بڑھنے کا جذبہ کسی کی بھی راہیں آسان بنا سکتا ہے۔ کامیابی اسی کو حاصل ہوتی ہے جو مسائل کا سامنا کرے اور مصیبت کا عزم مصمم کے ساتھ مقابلہ کرے”۔ دوسری طرف ‘اردو نیٹ جاپان’ کے بیورو چیف (انڈیا) سید کامران غنی بھی حماد ظفر کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”جب میں جے این یو میں تھا تو حماد بھائی سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ تعلیم سے متعلق ان کی دلچسپی اور ان کا عمیق مطالعہ ہی یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی تھا کہ ان کی پرواز کافی اونچی ہوگی۔
بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اچھے انداز میں بات کرتے تھے اور اندازِ گفتگو سے وہ بالغ نظر معلوم پڑتے تھے۔ ان کی کامیابی صرف جے این یو کے طالب علم کے لئے ہی خوشی کا باعث نہیں ہے، بلکہ مدارس کے ان تمام طلباء کے لئے باعث مسرت ہے جو آگے بڑھنا چاہتے، کچھ بننا چاہتے ہیں”۔بہر حال، حماد ظفر کے سامنے جب مدارس اور وہاں کے نصاب و انفراسٹرکچر کا تذکرہ کیا گیا اور اس پر ان کا نظریہ جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ”سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے۔
Schools
مدارس کا اصل مقصد کیا ہے حقیقت یہی ہے کہ مدارس دینی تعلیم کی آماجگاہ ہیں۔ مدارس کے نصاب اور وہاں کے انفراسٹرکچر میں کسی بھی ایسی تبدیلی سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے وہاں کا اصل مقصد ہی فوت ہوتا ہوا نظر آئے۔ ہاں، اس بات کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے کہ وہاں الگ سے سوشل سائنس جیسے موضوعات کو طلباء سے متعارف کرایا جانا چاہئے۔ میرے خیال سے ایسے سنٹرس قائم کئے جانے چاہئیں جہاں ضروری جدید تعلیم کا بندوبست ہو۔
اس سے طلبائکے ساتھ ساتھ علماء کو بھی فائدہ پہنچے گا کیونکہ جب وہ جدید حالات کو سمجھیں گے تو لوگوں سے جڑنے اور اپنی باتوں کو انہیں سمجھانے میں آسانی پیدا ہوگ حماد ظفر کی باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس کو جدید تعلیم سے جوڑنے کی بات بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے اور کئی مدارس میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، لی اکثر مدارس خود کو اس سے دور رکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔ مدارس کے اکثر طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید کچھ کرنے کے بارے میں نہیں۔
سوچ پاتے یا انہیں کوئی راستہ نظر ہی نہیں آتا۔ دنیاوی تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لئے مدارس کے طلباء کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور حماد ظفر جیسے طالب علم ان کے لئے راہنما ہیں۔ حماد ظفر کو سول سروسز امتحان میں ملنے والی کامیابی ان کے لئے منزل نہیں ہے۔
یقینا یہ کامیابی بڑی کامیابی ہے اور حماد ظفر بلاشبہ اس کامیابی سے بہت خوش ہیں، لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس کامیابی کا بہت دیر تک جشن منانے کے بجائے آگے جانے کے لئے اس کامیابی کو سیڑھی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انشاء اللہ ان کی یہ ہوشمندی اور آگے بڑھنے کا جنون ایک دن ضرور انہیں وہ مقام عطا کرے گی جس کا شاید وہ تصور بھی نہیں کرتے۔