اسلام آباد(جیوڈیسک)سپریم کورٹ میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے متنازعہ بیان سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ملک میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں کیا اس تقریر کا نوٹس لینا ان کا کام نہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے الطاف حسین کے متنازعہ بیان سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار وطن پارٹی کے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ نے اخبارات میں شائع الطاف حسین کے بیان کے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے ملک توڑنے کا بیان دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں الظاف حسین کو تو فریق بنایا ہی نہیں آپ کو الطاف حسین کی تقریر پر اعتراض ہے تو آپ نے ان کا نام کیوں نہیں لکھا۔ عدالت کو مطمئن کریں کہ کیا آپ کی درخواست قابل سماعت ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ انہوں نے چیئرمین ایم کیو ایم کو فریق بنایا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شاید ایم کیو ایم الطاف حسین کے نام سے رجسٹرڈ نہیں یہ پارٹی فاروق ستار کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ یہ رجسٹریشن محض انتخابی مقاصد کیلئے ہے۔ پارٹی دراصل الطاف حسین چلا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں ثابت کرنا پڑے گا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا سربراہ کون ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کو ملک دشمن سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ سیاستدان تقریریں کرتے رہتے ہیں کیا سپریم کورٹ ان کے پیچھے لگ جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں کیا۔
اس تقریر کا نوٹس لینا ان کا کام نہیں ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ الیکشن کمیشن سے دستاویزات لے کر بتائیں کہ ایم کیو ایم کا سربراہ کون ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ درخواست مناسب طریقے سے بنا کر دوبارہ جمع کرائیں اور سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔