ہیریکی تلاش مشکل ضرور مگر ناممکن نہیں ہے ۔ہم پاکستانی دیگر ممالک کی طرح اپنا قیمتی سرمایہ اور اپنے بھائیوں کا ٹیلنٹ ضائع نہیں کرتے اور اُسے سات آٹھ لحافوں میں سمیٹ کر سنبھال رکھتے ہیں۔میں نے اپنے جیسے کِسی درویش فلسفی سے پوچھا ” کیا جنت اور دوزخ کے دروازوں پر پہرہ ہوگا ؟” میرے عکس نے کہا”صرف جنت پر…اور دوزخ کے دروازے پر کِسی قسم کا پہرہ ہر گز نہیں ہوگا ،کیوں کہ وہاں جانے والوں میں پاکستانیوں کی کثرت ہوگی اِس طرح اگر کوئی وہاں سے راہِ فرار کی کوشش بھی کرے گا تو اُس کا ساتھی اُس ہی کی ٹانگ پکڑ کر واپس کھینچ لے گا۔
آج راقم نے قلم اُٹھایا ہے ایسے ہی ایک نایاب اور انمول ہیرے کیلئے وہ ایسا درخشاں ستارہ ہے جو 12کروڑ 60 لاکھ پاکستانی نوجوانوں کے سوا بیرونِ ممالک کی نوجوان یوتھ کے ارد گرد بھی جگمگارہا ہے مگر اِس ہیرے،اِس ستارے کی چمک و روشنی مسندِ اقتدار پر بیٹھے اربابِ اختیار کو نظر نہیں آ تی۔یہ وہ روشن ستارہ ہے جِس کیلئے حاکمِ وقت جناب محترم میاں محمد نواز شریف صاحب نے اُسے سندِ اعزاز عطا کرتے ہوئے اِن تاریخی الفاظ کا استعمال کیا تھا
۔جو آج تک تحریری شکل میں اِس نوجوان کے پاس موجود ہے”28مئی1998ء کو پاکستان ایٹمی قوت بنا اِس تاریخ ساز دن کو منانے کیلئے آپ نے ‘یومِ تکبیر’ نام تجویز کر کے قومی خدمت انجام دی ہے ، میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اِس قومی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو سندِ اعزاز عطا کرتا ہوں”(محمد نواز شریف /وزیرِ اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان) 8سال کی عمر میں حکومتِ وقت سے سندِ اعزازحاصل کرنے والے اِس نوجوان کا نام مجتبیٰ رفیق ہے۔
جو اِس وقت وائس آف یوتھ (Voice Of Youth)کا چیئر پرسن ہے۔وائس آف یوتھ اِس وقت دنیا بھر کے نوجوانوں کے حقوق کی بقاء کی جنگ لڑ ہی ہے۔ناظم آباد کراچی کے رہائشی انجینئر شیخ محمد رفیق کا نورِ نظر مجتبیٰ رفیق بچپن سے ہی جزبہِ حُب الوطنی سے سرشار تھااور اِنہی واضح سلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے انہوں نے اپنے لختِ جگر کو کراچی سے کمپیوٹر سائنس میں اِنٹرکروانے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلینڈ روانہ کر دیا ۔
Education
ریٹائرڈ شیخ محمد رفیق جانتے تھے کہ اُن کے لختِ جگر میں موجود صلاحتوں کو اعلیٰ تعلیم مزید نکھار دے گی۔ قیامِ پاکستان سے لیکر اب تک کے تمام تحریکِ آزادی کے سیاسی اور غیر سیاسی لیڈروں کی اصل تصاویر اِس نوجوان کے پاس نوادرات کی طرح محفوظ ہیںاور یہ بھی حب الوطنی کی ایک زندہ مثال ہے۔بات اب چلی ہے تو میں قارئین کو اِس نوجوان کے بارے کچھ اہم معلومات بھی فراہم کرتا چلوں کہ اِس طرح کی باتیں اک نیا ولولہ و جوش پیدا کرتیں ہیں…خالقِ ”یومِ تکبیر” مجتبیٰ رفیق کوئی رئیس زادہ نہیں اِس نوجوان نے جیب خرچ کا ایک روپیہ بھی کبھی اپنی ذات کیلے استعمال نہیں کیا۔
جہاں تک ہو بنا خواہ اُدھار بھی لینا پڑا لے کر خلقِ خدا کی خدمت میں صرف کر دیا۔فلاح و بہبود کے کام کیلئے دیہی اور سیلاب زدہ علاقوں میں عوام الناس کی بے لوث امداد کی اور پاکستان ارتھ کوئک (Earth Quake)کے تقریبا تمام ایریا میں اپنی مدد آپ کے تحت کیمپ میں جمع کر کے فری دوائیاں ،کمبل،امدادی اور خوردو نوش کا سامان،کپڑے ، جو تیاں اور بستر تک بانٹیں …یہاں تک کہ دوستوں ،عزیزو اقارب سے لیکر اور جمع شدہ رقم سے دادو میں دو غریب لڑکیوں کی شادی بھی کروائی۔
یہ سب کچھ اِس نوجوان نے کرسی یا اقتدار کی خاطر نہیں بلکہ جزبہِ حقوق العباد کے تحت روحانی تسکینِ قلب کیلئے کیا۔ گزشتہ دِنوں اِس نوجوان سے بات چیت کرنے کا موقع مِلا… مجتبیٰ رفیق نے بتایا کہ وہ دو بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے چھوٹا ہے اور پانچ سال کی عمر سے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔یہ نوجوان خود کو عبد الستار ایدھی کی طرح ہر قسم کی سیاست سے پاک صرف اور صرف خالصتاً خدمتِ خلق کیلئے وقف کر دینا چاہتا ہے۔
دوسرے نوجوانوں کی طرح اِِس نوجوان کے مشغلے کرکٹ ،سکوائش،فٹ بال، موویزدیکھنا وغیرہ نہیں بلکہ اِس کا مشغلہ تو یہ ہے کہ زندگی ملک و قوم کی خدمت میں تمام ہو۔ایک نجی چینل پر انٹر ویو ریکارڈ کرواتے ہوئے مجتبیٰ رفیق نے کہا تھا کہ حکومتِ وقت کی جانب سے آج تک سوائے اعزازی سند یا سرٹیفیکیٹ کے کچھ نہیں مِلا ۔اِسے بد قسمتی سمجھیں یا قدرت کا امتحان کہ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد جناب میاں نواز شریف کی حکومت کو پرویز مشرف نے جبراً ختم کر دیا تھا۔
P P P
شائد اِسی وجہ سے اِس ہونہار محبِ وطن نوجوان کو اِس کا اصل حق نہیں مِل سکا ۔کیونکہ جو بڑے میاں صاحب کی حکومت اور اُن کے خلاف تھا وہ یقینا اُن کے اِس عظیم کارنامے جوا نہوںنے چاغی کے مقام پر 28مئی1998کو3بجکر15منٹ پر پاک سر زمین کو مضبوط دفاعی قوت بنانے کیلئے دھماکے کیے تھے کے بھی خلاف تھا تو مجتبیٰ رفیق جیسا ادنا سا 8سالہ بچہ اُس ڈکٹیٹر کی نظر میں تو ایک کیڑے مکوڑے سے بھی کم تر تھا۔اب آگے چل کر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو بھی 28مئی ”یومِ تکبیر” یا اِس عظیم دِن کے نام کے بانی مجتبیٰ رفیق کا کِسی نے پلٹ کر حال تک نہ پوچھا اور انہیں لاوارثوں کی طرح چھوڑدیا گیا۔
حقیقت میں یہ عظیم دِن جو 28مئی 2013منگل کے روز آرہا ہے اِس دِن ”یومِ تکبیر” کے وارث لوٹ آئیں ہیں جو اِس دِن کے ساتھ ساتھ اِس دِن کے نام کے خالق کو اب کبھی تنہا بے یارو مدد گار نہیں چھوڑیں گے۔میں اُمید کرتا ہوں کہ میاں نواز شریف صاحب اپنی وزارت و قیادت میں اِس یوم کو دوبارہ جوش وخروش سے منانے کا باقائدہ اعلان کریں گے۔اور اِس ”یومِ تکبیر” کی خاص تقریب میں اِس دِن کے ہیرو مجتبیٰ رفیق کو چیف گیسٹ کی حیثیت سے بُلا کر پوری قوم کو اِس بات کی یقین دہانی کروائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کبھی اپنے محسنوں کو نظر انداز نہیں کرتی اور پڑھے لکھے نوجوان خاص کر کے اِس جماعت کے ستون ہیں میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ میاں برادران کو اپنی حکومت سٹرونگ بنانے کیلئے ایسے ہی محنتی اور محبِ وطن نوجوانوں کی ضرورت ہوگی۔اب آخر میں ایک حقیقت …نگران وزیِراعظم میر ہزار خان کھوسو کے بیٹے کی ایک پُر کشش عہدے پر تقرری ہوئی انہیں جو کہ گریڈ 18پر کام کر رہے تھےNHAمیں گریڈ 19میں شامل کر دیا گیا۔سننے میں آیا کہ یہ ترقی زرداری حکومت کی جانب سے ”آغازِ حقوق بلو چستان پیکج”کے تحت کی گئی ہے۔
خیر نگران حکومت نے بھی وقتِ آخر میں اپنا کام دکھانا شروع کردیا ہے اور جاتے جاتے بہتی گنگا میں غسل کر کے جانا چاہتے ہیں ۔مگر غور طلب بات تو یہ ہے کہ جو شخص حقیقت میں 19گریڈ کا حقدار ہے وہ مجتبیٰ رفیق اِس وقت نہ صرف بے روزگار ہے بلکہ ایک چھوٹی موٹی مستقل نوکری کیلئے سفارشی دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور ہے۔
۔دوسروں کو خوشیاں باٹنے والا خود غموں میں ڈوبا ہے ۔ ”یومِ تکبیر” کے ہیرو مجتبیٰ رفیق پر بے روزگاری کی بدولت فاقوں تک کی نوبت آچکی ہے اور موبائل میں ایزی لوڈ کر وانے کیلئے 20روپے تک نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو جزبہِ انسانیت سے سرشار یہ نوجوان اپنے موبائل کی بجائے کِسی دوسرے ضرورت مند کے موبائل میں ریچارج کروانے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔