امریکا اور اسلام کی کوئی جنگ نہیں، افغانستان سے نکلنا ہوگا

Obama

Obama

واشنگٹن(جیوڈیسک) امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکا محفوظ ہو گیا، افغانستان میں جنگ کا خاتمہ قریب ہے، کوئی قوم مسلسل جنگ کرکے کامیابی حاصل کر سکتی۔امریکی صدر باراک اوباما کا انٹرنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے پالیسی خطاب میں کہنا تھا کہ نائن الیون میں دہشت گردوں کا گروہ امریکا پر حملہ آور ہوا۔

جس کے بعد سے جاری القاعدہ کیخلاف ہماری جنگ کو 10 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ القاعدہ کی قیادت افغانستان اور پاکستان میں شکست کے قریب ہے۔ اب القاعدہ کو ہم پر حملوں کی بجائے اپنی جان بچانے کی فکر ہے۔ لیکن ہمیں افغانستان سے باہر بھی دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنا ہے۔

آج ہمیں القاعدہ کی بہت سی مقامی شاخوں کا بی سامنا ہے۔ القاعدہ دنیا کے دور دراز خطوں میں جمع ہو رہی ہے۔ شدت پسند شام اور لیبیا میں جمع ہو گئے ہیں۔ ہماری قوم آج بھی دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ ہمیں القاعدہ اور اس کی شاخوں کو ختم کرنا ہو گا۔ القاعدہ کی مقامی شاخیں دنیا کے بہت سے ملکوں میں کام کر رہی ہیں۔ افغانستان میں اپنا آپریشن مکمل کر کے باہر نکلنا ہو گا۔

ہمیں سب سے پہلے القاعدہ کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے اہم رہنمائوں پر حملے 2014 کے آخر تک جاری رہیں گے۔ افغانستان کے ساتھ مل کر انسداد دہشتگردی فورس تشکیل دیںگے۔ امریکی صدر کا اپنے خطاب میں کہنا تھا القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن آسان نہیں تھا۔ اسامہ کے خلاف آپریشن کے لئے افغانستان میں امریکی انفراسٹرکچر سے مدد لی۔ اس اہم آپریشن میں بہت سی انسانی جانیں جانے کا خطرہ تھا۔

ایبٹ آباد کمپائونڈ سے اہم ترین دستاویزات ملیں۔ پاکستان کی حکومت نے اسامہ کے خلاف آپریشن میں تعاون کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانی فوجی اور عوام اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف امریکی ڈرون پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں پر ہمیں بہت تنقید کا سامنا کرنا ہڑتا ہے۔

ڈرون حملوں کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ہمیں ہر جگہ حملوں کی آزادی نہیں ہے۔ حملوں سے قبل شہریوں کی جان و مال کا تحفظ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ آئندہ بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ ڈرون حملوں میں کوئی شہری ہلاک نہ ہو۔ ڈرون حملوں کے ذریعے جن دہشت گردوں کو ہم مار رہے ہیں وہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ دہشتگردی سے مرنے والوں کی تعداد ڈرون حملوں سے زیادہ ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف زمینی کارروائی سے امریکا کے خلاف نفرت بڑھ سکتی ہے۔ ڈرون حملوں کی وجہ سے ہم اپنے دشمنوں کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ڈرون حملے جانیں بچانے کا ذریعہ اور قانونی ہیں۔ امریکی اقدامات کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر نے یقین دلایا کہ القاعدہ اور اس کے حامی گروپوں کے علاوہ ڈرون حملے کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں ہونگے۔

امریکی صدر باراک اوباما کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اسلام اور امریکا کسی جنگ میں ہیں۔ امریکا اور اسلام کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہے۔ اس تاثر کو مسلمانوں کی اکثریت مسترد کر چکی ہے۔