برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کو ملک کے خفیہ اداروں نے 1936 میں برطانوی تخت سے دستبرداری کے بحران کے دوران زیر نگرانی رکھا تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس بات کا انکشاف حال ہی میں برطانوی ادارے کی جانب سے جاری کی گئی خفیہ دستاویزات سے ہوا ہے۔
دستاویزات کے مطابق اس وقت کی برطانوی وزارتِ داخلہ نے حکم جاری کیا تھا کہ شاہی رہائش گاہوں اور یورپ کے درمیان ہونے والی تمام ٹیلیفون کی گفتگو ریکارڈ کی جائے۔ ان فائلوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے اس سے قبل مسز والس سمپسن پر لندن میں ایک بم حملے کے خطرے کی تحقیقات بھی کی تھیں۔ یہ تمام معلومات وزارتِ خارجہ اور کابینہ کے دفتر کی دستاویزات میں موجود ہیں۔
جن کا تعلق دوسری جنگِ عظیم اور سرد جنگ کے زمانے سے ہے۔ اس صورتحال میں کہ جب بادشاہ ونڈزر پارک میں واقع بیلویڈئیر کے قلعے میں اور مسز سمپسن اپنے دوستوں کے ساتھ فرانس میں رہائش پذیر تھیں تو اس وقت کے وزیر داخلہ سر جان سائمن نے جنرل پوسٹ آفس کو حکم دیا کہ وہ خفیہ طور پر بادشاہ کی تمام گفتگو کی نگرانی کریں۔ پانچ دسمبر 1936 کو وزارتِ داخلہ سے جنرل پوسٹ آفس کے سربراہ سر تھامس گارڈنر کو لکھے گئے۔
ایک نوٹ میں ان پر واضح کیا گیا تھا کہ یہ بہت خفیہ معاملہ ہے۔ اس میں لکھا گیا کہ وزیر داخلہ نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں ان معلومات کی تصدیق کروں کہ جو انہوں نے آپ کو زبانی دی تھیں۔ سر ہوریس ولسن کی جانب سے دیے گئے اختیار کے تحت آپ ایک طرف تو بکنگھم پیلس یا بیلویڈئیر کے قلعے کی جانب سے اور دوسری طرف یورپ کے براعظم کے درمیان کئے گئے۔
تمام ٹیلیفون کے رابطوں کی نگرانی کریں گے۔ اس فائل میں کسی قسم کی ریکارڈ شدہ کالوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ دس دسمبر 1936 کو شاہ ایڈورڈ نے اپنی قسمت کے فیصلے کو تسلیم کیا اور اپنی 326 روزہ بادشاہت کے خاتمے کا اعلان اپنی دستبرداری کی دستاویز پر دستخط کر کے کیا۔
اس سے کچھ دن قبل ایسے ٹیلی گرام جو جنوبی افریقہ جا رہے تھے روک لیے گئے جن میں بادشاہ کے تخت سے دستبردار ہونے کی خبر تھی۔ اس کا حکم بھی وزارتِ داخلہ نے دیا تھا۔ ان ٹیلیگراموں میں سے ایک کے ارسال کنندہ اور کیپ ٹائمز اخبار کے لندن کے مدیر نیل فوربس گرانٹ کو وزیر داخلہ نے اپنے دفتر طلب کیا تھا جس کی تفصیل ان فائلوں میں موجود ہے۔