اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی تقرری کے خلاف درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ اٹارنی جنرل نے چیئرمین نیب کی تقرری کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کر دیا۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں عدالت عظمی کے پانچ رکنی لارجر بنچ کے روبرو درخواست گزار چودھری نثار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ چئیرمین نیب کی تقرری کیلئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت نہیں کی گئی۔ ایک نام تجویز کرنے کیلئے لکھا گیا خط مشاورت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس خط پر اپوزیشن لیڈر کے جواب کو غیر منطقی قرار دے دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چار عدالتی فیصلوں میں چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے چیف جسٹس کے کردار کا ذکر ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ان فیصلوں میں چیف جسٹس کا کردار ثالث کے طور پر دیا گیا۔ اپوزیشن لیڈر نے اپنے خط میں فصیح بخاری کے نام پر اعتراض نہیں اٹھایا۔ صدیوں کی روایت ہے کہ خاموشی کو رضامندی سمجھا جاتا ہے۔
چیئرمین نیب کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہر مقدمے کا فیصلہ کرنے والی آخری عدالت ہے اس لیے چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے میں عدلیہ کو شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ سیف الرحمن کا دور واپس لانا چاہتے ہیں جب چیئرمین ججوں پر اثر انداز ہوتا تھا؟ جو شخص اب وزیراعظم بننے جا رہا ہے اس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی مشاورت کسی ریٹائرڈ جج کی تقرری کیلئے شاید مفید ثابت ہو لیکن ریٹائرڈ آرمی افسر یا گریڈ بائیس کے افسر سے متعلق چیف جسٹس کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ اب وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ لطیف کھوسہ کے دلائل جاری تھے کہ سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔