قارئین امسال ہونے والے الیکشن میں پاکستان کی بھر پور سیاسی قوتزوال کا شکار ہو گئی جس کی وجہ سے عوام تو درکنارخود پیپلز پارٹی کے قائدین بھی پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ماجرا ہو گیا جس نے پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا کون سا طوفان آیا جو بڑے بڑے برجوں کو لے اڑا پیپلز پارٹی کے گذشتہ پانچ سالہ دور اقتدار کا جائزہ لیں تو ان کے دور اقتدار میں اپنوں کو نوازنے کی مہم تو تھی ہی غریبوں کو دیوار سے لگانے کی مہم بھی چل نکلی ان کے دور اقتدار میں مہنگائی لوڈشیدنگ امن و امان کا مسلہ جس قدر رہا اس سے قبل اس کی مثال نہیں ملتی قارئین پیپلز پارٹی کی جب بنیاد رکھی گئی تھی۔
تو اس کے بانی ذولفقار علی بھٹو نے عوام کو جو جذبہ دیا اور وطن عزیز کو جو جلا بخشی اس نے نوجوانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ہمیشہ پیپلز پارٹی کے جیالے ہو گئے جب بھٹو کا تختہ الٹ دیا گیا اور ضیا الحق نے انہی نوجوانوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ساتھ پیار کرنے کے جرم میں کوڑے برسائے اور انہی نوجوانوں نے ہر ظلم کو برداشت کیا۔
پیپلز پارٹی کو کبھی نہ چھوڑنے کا عزم کئے رکھا ضیاالحق کی جیلیں ظلم جبر کی رقم کی گئی ان داستانوں سے جیالے متزلزل نہ ہوئے اور جب محتمہ بے نظیر بھٹو پاکستان آئیں تو ان کا والہانہ استقبال تاریخ کے سنہری حروف میں لکھا جا چکا ہے پیپلز پارٹی کو توڑنے کے خواب دیکھنے والا ضیاء الحق خود ٹوٹ گیا اور دنیا نے دیکھا کہ قوم نے محترمہ کو ایک بار پھر ملک کا سربراہ بنا دیا۔
انہوں نے ملک بھر کے نوجوانوں میں ایک بار پھر وہ جذبہ بھر دیا کہ جیالے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور وہ کسی بھی جبر ظلم کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گئے جب ایک اور آمر نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو اس نے ایک طرف تو پوری دنیا میں عالم اسلام کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا اسے پایا تکمیل تک پہنچانے کی ہر ممکن کو شش کی تو دوسری ظرف جیالوں کو بربریت کا نشانہ بنانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک سے باہر رہ کر بھی جیالوں کو حوصلہ اور ظلم کے خلاف آواز اٹھا ئے رکھی جیالوں کے حوصلے کبھی بھی کم نہ ہوئے اورجب محتمہ کراچی میں آئیں تو جیالوں کے جذبے دیدنی تھے انہوں نے ان کا جو استقبال کیا وہ دیکھنے کے قابل تھا پھر ظالم ہاتھوں نے روالپنڈی لیاقت باغ میں انہیں اس وقت موٹ کی آغوش میں سلا دیا جب وہ ایک تاریخی خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں ان کی موت نے جیسے جیالوں پر سکتا طاری کر دیا ہو۔
People Party
مگر ان کے جذبے اس قدر تھے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر اقتدار پر بیٹھا دیایہ کمال انہی ورکروں کا تھا جو پیپلز پرٹی کے لئے کوڑے کھاتے رہے جیلیں اور ظلم سہے مگر انہیں کیا خبر تھی کہ پیپلز پارٹی کے نام پر اقتدار میں آنے والے اپنی یعنی ان کی پارٹی کے کتنے مخلص ہیں انہوں نے اقتدار میں آتے ہی پہلے یہ کام کیا کہ پیپلز پارٹی کے جتنے بھی مخلص ورکر تھے انہیں یا تو نظر انداز کیا یا پھر انہیں پارٹی سے باہر نکال کیا۔
ان کے دور اقتدار میں وہ کام ہوئے جو پیپلز پارٹی کے منشور میں نہ تھے مہنگائی بے روز گاری خون ریزی بم دھماکے اور اوپر سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے جیالوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا سے پیپلز پارٹی کے ورکر پیپلز پارٹی سے نالا ں ہو گئے مگر قائدین بدمست ہاتھی کی طرح پھرتے اور لوٹ مار کرتے رہے ان الیکشن میں بھی صرف ضلع چکوال کی ہر یونین کونسل کو میری اظلاع کے مطابق 48لاکھ روپے دئیے گئے وہ کہاں گئے۔
کس کو ملے یہ کسی کو علم نہیں نوکریاں ملیں مگر جیالے منہ دیکھتے رہے پھر جیالے ورکر مایوس ہو کر قائدین کے سامنے سراپا احتجاج بن گئے مگرکسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور جیالوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی مگر قائدین نے یہ تکلیف گوارہ کرنے کی زحمت نہ کی کہ ان سے پوچھ لیا جائے کہ کیا وجہ ہے پھر اخبارات کے صفحات پر آن ریکارڈ بات ہے ۔
اس سال پیپلز پارٹی ورکروں کے بغیر الیکشن لڑے گی مایوس ورکروں نے انتقامی رویہ اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا یہ ہیں پیپلز پارٹی کے زوال کے اسباب جن کی بدولت پیپلز پارٹی آج جس مقام پر کھڑی ہے وہ تنظیم سازیوں کے بجائے اپنی کوتائیوں کو دور کرتے ہوئے کوشش کرے جو شائد اب ایک خواب ہی ہو کہ وہ ایک بار پھر اپنے کارکنوں کو وہ مقام دے جس کے وہ حقدار ہیں شائد پیپلز پارٹی ایک بار پھر بھر پور سیاسی قوت بن کر ابھر سکے۔