الحمدللہ ..!مُلک میں عام انتخابات کاعمل مکمل ہوگیاہے، اورآہستہ آہستہ یہ بھی واضح ہوتاجارہاہے کہ وفاق اور صوبوں میں کس کس کی حکومتیں تشکیل پانے کو ہیں، قوم خاطر جمع رکھے کہ عنقریب یہ عمل بھی بفضلِ تعالیٰ اپنے اختتام کوپہنچ ہی جائے گا، آج اِن حالات میں جب میں عام انتخابات کے بعد مجموعی طورپر اپنی قوم پر گزرے گزشتہ پانچ سالوں کا جائزہ لیتاہوں۔
تو مجھے اِس بات کاشدد سے احساس ہوتاہے کہ پچھلی حکومت کے بے حس حکمرانوں نے اپنے دورِ اقتدار کے پانچ سالوں میں قوم کو تاریخ کے انتہائی ہولناک اور دردناک لمحات سے گزرااوراُن حالات میں قوم نے مایوسیوں کے سمندر میں غوطہ زن رہ کر ایسی ایسی المناک داستانیں رقم کیں کہ جنہیں قوم کبھی بھی نہیں بھول پائے گی …!! اور آج بھی جب یہ اپنے گزرے ہوئے پانچ سالوں کے ماضی کو یادکرتی ہے تو اِس پر لزرہ سا طاری ہوجاتاہے مگر اَب جب کہ قوم میں گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعدوطنِ عزیز کی تاریخ میں پہلی باروزارتِ عظمیٰ کا منصب تیسری مرتبہ سنبھالنے والے(بقول اُن کے) دورِ جدیدکے امیر المومنین اورمتوقعہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی ذات سے اپنے بہتر اور تابناک مستقبل کی قوی اُمید یںپیداہوگئی ہیں۔
تومُلک کی نومنتخب قیادت کوقوم کی اِس اُمیدکوچکناچورکرنے سے ہر صورت میں اجتناب برتناہوگا،اورمُلک کی نئی قیادت کو عوام میں اگلے پانچ سالوں میں پیداہونے والے کسی بھی احساس محرومی سے بچانا ہے تو اِسے بھونک بھونک کرنہ صرف خود قدم اٹھانا ہوں گے بلکہ اپنی کابینہ کے ہر وزیراور مشیرکو بھی اِس کا پابندکرناہوگاکہ وہ بھی لب کشائی کرنے سے پہلے ایک ایک لفظ اور ہر جملے کو تول کر اور خوب ٹٹول کر اداکریں کیوں کہ اِن کی ذراسی غلطی اور لفظوں کی زمبش اِن کی پکڑکرواسکتی ہے اورمیڈیا اور میڈیاپرسنزاِن کی کسی بھی غلطی کو اُچھال کر اِن کی حکومت اور سیاست کا امیج خراب کرسکتے ہیں۔
جیساکہ یہ اِن لوگوں کا ایک مثبت اور بے مثل وطیرہ ہے جس سے میرے مُلک کے سیاست دانوں ، حکمرانوں اور اداروں کے کرتادھرتاؤں پر کبھی گھبراہٹ تو کبھی اطمینان طاری ہوجاتاہے تو وہیںمیڈیا کے اِس کردار پر عوام میںخوشگوار اور مثبت تاثر کے آثار بھی پیداہوتے ہیں ایسے میں عوام کا خیال یہ ہے کہ میڈیااور اینکرپرسنزکو اپنے اِس عمل کو اپنا طرہ امتیاز بنالیناچاہئے اور یہ کسی بھی دباؤ کے بغیر دورِ جدید کے امیرالمومنین اورمتوقعہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں بھی اپنا یہ عمل ہر صورت میں جاری رکھیں اِس سے ایک اچھا چیک اینڈ بیلنس کا عمل چلتارہے گا۔
PML-N
بہرحال…!!اِس میںکسی قسم کی شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے کہ گیارہ مئی 2013کے عام انتخابات میں پی ایم ایل ّن) سادہ اکثریت سے وفاق میں حکومت بنانے میں توضرور کامیاب ہوگئی ہے ، مگراِسی کے ساتھ ہی اِس کا سخت ترین امتحان بھی شروع ہوگیاہے، اَب دیکھنایہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف مُلک کے تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کیا یہ بجلی کے بحران کے جن سے نمٹ سکیں گے جس نے مُلک کو اپنی گرفت میںجکڑرکھاہے…؟اور کیا میاں صاحب اور اِن کی جماعت کے لوگ عوام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ڈرون حملے رکواسکیں گے…؟آج قوم کے ذہنوں میں ایسے بہت سے سوالات اور مخمصے جنم لے رہیں ہیں ۔
جن کا تسلیم بخش جواب دینامُلک کی نومنتخب قیادت پر ضروری ہوگیاہے اور ویسے بھی میاں نواز وشہباز شریف اور اِن کی جماعت کے جیالوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوامی اجتماعات او رمیڈیاکودیئے جانے والے اپنے بیانات میں اقتدار کے حصول کے بعد اپنے ہر وعدے اور دعوؤں کو پوراکرنے کا بھی کہاتھاآج قوم کا ہر فرد موجودہ حالات میں متوقع وزیراعظم اور دورِجدید کے امیرالمومنین میاں نواز شریف اور اِن کی جماعت کے ہر فرد سے اُن کے وعدوں کی تکمیل کی اُمیدرکھتاہے اور توقع رکھتا ہے کہ میاں نواز شریف اور اِن کی جماعت پی ایم ایل (ن) کے جانثار جیالے مُلک سے بلاکسی تفریق اور سیاسی بغض و کینہ کے کراچی سمیت مُلک بھر سے بجلی بحران کو ختم کرنے اور اِسی طرح جلد مُلک میں ڈرون حملوں کو رکوانے کے لئے بھی کوئی ایسی پائیدار خارجہ پالیسی اور آئندہ کا لائحہ عمل ضرور مرتب کریں گے۔
جس کی بنیاد پر ڈرون حملے رک جائیں گے اور بجلی کا بحران بھی ختم ہوجائے گاجبکہ مُلک کے موجودہ حالات میں امریکی صدر بارک اوباماکی ڈرون حملوں کے حوالے سے نئی پالیسی آجانے کے بعد ڈرون حملوں کو رکوانے کے معاملے میں نومنتخب اور متوقعہ وزیراعظم نوازشریف کی قبل ازخاموش اِس جانب واضح اشارہ دے رہی ہے کہ یہ ڈرون حملے رکوانے میں ناکانام ثابت ہوں گے ، اِن کی جانب سے پیداہونے والے اِس قسم کے خدشات پرتب ہی چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں متوقعہ وزیراعظم نواز شریف سے کہہ دیاہے کہ نواز شریف جرات کا مظاہرہ کریں اور ڈرون حملے فی الفوررکوائیں ، نواز شریف ڈرون حملوں کے خلاف پالیسی بنائیں توساتھ بھی دیں گے۔
تو ہر ممکن قدم بھی ا ٹھائیں گے،اُنہوں نے واضح الفاظ میں کہاہے کہ ہم ہر فورم پر ڈرون حملوں کو صدی کا سفاکانہ عمل قراردیتے ہیں، ہم اپنے معصوم پاکستانیوں ، جن میں بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں اِن سب معصوموں کا قتل دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتے ہیںاُنہوں نے کہاکہ حکمران اپنی کانپتی ٹانگیں کنڑول میں رکھیں اور ڈرون حملوںکے خلاف ڈٹ جائیں ہم اِن کے شانہ بشانہ ہوں گے، عمران خان کا ڈرون حملوں کے خلاف یہ بھی کہنا ہے کہ قوم نے گیارہ مئی کے انتخابات میں ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو ووٹ دیاہے ،اَب حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ عوام کے اعتماد پر پورااُتریں اور عوام کو ڈرون حملوں سے جلد ازجلد نجات دلوائیں۔
Drone attacks
جبکہ آج ڈرون حملوں کے حوالے سے ہمارے یہاں عام خیال یہ پایاجاتا ہے کہ گیارہ مئی 2013کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سادہ اکثریت سے حکومت بنانے والی جماعت کی پوزیشن واضح ہوتے ہی امریکاکے پہلے سیاہ فام صدر مسٹر بارک اوباماکی ڈرون حملوں کے بارے میں بھی نئی پالیسی سامنے آگئی ہے جس کی روشنی میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں تیزی آنے کابھی قوی امکان پیداہوگیاہے۔اگرچہ اِس صورتِ حال کے منظر اور پس منظر میں مجھے اپنے نومنتخب حکمرانوں سے قوم کی بجلی بحران کے خاتمے اور ڈرون حملے رکوانے کی اُمیدیں محض اُمیدیں و حسرت اور مطالبات اور اپیلوں کے سواکچھ نہیں لگتاہے۔
یہ بات میں اِس لئے کہہ رہاہوں کیوں کہ امریکی صدر کی ڈرون حملوں سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی ہمارے آئندہ آنے والے حکمران اور ایوانِ نمائندگان بھی امریکی دباؤ اور مصالحتوں اور مفاہمتوںکے ساتھ ساتھ تذذب کابھی شکارہوتے نظرآرہے ہیں ،اِن کی یہی پریشانی اور اِن کا یہی اضطراب پن ہے کہ جو یہ بتارہاہے کہ ہمارے نومولود حکمران کی یہی پریشانی اور بوکھلاہٹ مُلک میں ڈرون حملوں کو نہ رکوانے کی وجہ بنے گی اور اِس بنیاد پریہ نہ تو ڈرون حملے بندکرواسکیں گے اور نہ ہی یہ مُلک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو کم ہی کیا …؟ختم کروانے میں بھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔
یہاں اگراجازت ہوتو میں یہ عرض کرتاچلوں کہ اگر ہمارے نومنتخب حکمرانوں نے ڈرون حملوں ، دہشت گردی اور بجلی کے بحران کے جن کو کنٹرول کرنے سے متعلق اپنی کوئی واضح پالیسیاں نہ مرتب کیں تو پھر کیاقوم کو اگلے پانچ سال بھی بجلی بحران، ڈرون حملوں اور دہشت گردی میں ہی گزارنے ہوں گے…؟یہ وہ سوال ہے جس کاتسلی بخش جواب دینے کے لئے ابھی ہی سے ہماری نومنتخب قیادت کو متحرک ہوناپڑے گاتاکہ اگلے الیکشن دو یا ایک سال یا پھر قسمت سے پانچ سال بعد ہوں تو ہماری نومنتخب قیادت عوام کی دہلیز پر اعتماد اور اطمینان کے ساتھ جائے…!ورنہ ورنہ…اِن کے مقدر میں بھی سابقہ حکمران جماعت کی طرح سوائے ذلت و خواری کے کچھ نہیں آئے گا۔ تحریر: محمداعظم عظیم اعظم