ترقی پذیر ممالک میں معذور بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جو افسو سنا ک ہے، محض 15 فیصد معذور افراد کو ضروری طبی سہولیات میسر ہیں اقوام متحدہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن کل یکم جون کو منایا جا رہا ہے جبکہ اس موقع پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال (یونیسیف) نے دنیا کے مختلف خطوں میں معذور بچوں کی صورتحال کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ پیش کی ہے۔
ترقی پذیر اور تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ممالک میں معذور بچوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور معاشرے میں ان کا مقام نہایت افسوسناک ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں محض 15 فیصد معذور افراد کو ضروری طبی سہولیات میسر ہیں۔
مثال کے طور پر ویل چیئر۔ غریب ممالک میں مرگی کے مرض میں مبتلا دو تہائی مریض ادویات سے محروم ہیں۔ یونیسیف کے ترجمان روڈی ٹارنیڈن نے اس امر کی شکایت کی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں معذور بچوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں کوئی مستند اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ان کے بقول ہمیں معلوم ہے کہ ایک طرف تو دنیا کے تمام ممالک میں بچوں کے حقوق پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔
زیادہ تر ممالک کہتے ہیں کہ انہوں نے بچوں خاص طور سے معذور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں تاہم حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں معذور بچوں کی ایک بڑی تعداد کو معاشرے میں کوئی مقام حاصل نہیں۔ ایسے بچے اور ان کے گھر والے سیاسی سطح پر مکمل طور پر نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں معذور بچوں کی تربیت کا خاص بندوبست موجود ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں معذور بچوں کو غیر معمولی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
ضروری طبی سہولیات سے لے کر ان بچوں کی تعیلم و تربیت تک کے خصوصی انتظامات موجود ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ترقی پزیر ممالک میں معذور بچوں کے ساتھ روا سلوک افسوسناک ہے۔ صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک میں معذور بچوں کے لئے باقاعدہ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے تربیت دہندگان موجود ہوتے ہیں۔ ان بچوں کی نشوونما اور ان کی ذہنی اور جسمانی ترقی کے لئے خصوصی ٹریننگ کا انتظام ہوتا ہے جبکہ دنیا کے وسیع ترین علاقوں میں معذور بچوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔
انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور معاشرے سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ صنعتی ممالک میں عام بچوں کے سکول میں بھی معذور بچوں کی جگہ ہوتی ہے۔ یونیسیف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مشرقی یورپی ممالک میں بھی زیادہ تر یہی صورتحال ہے۔
یہی نہیں بلکہ ان ممالک میں حکومت کی طرف سے والدین پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے معذور بچوں کو گھروں میں رکھنے کے بجائے انہیں ان کے لئے بنائے گے خصوصی مراکز میں داخل کرا دیں۔ یونیسیف کی طرف سے تمام معاشروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ نارمل بچوں کی طرح معذور بچوں کو بھی تمام تر سہولیات فراہم کریں اور جو مراکز دیگر بچوں کے لئے قائم ہیں ان کے دروازے معذور بچوں کے لئے بند نہ رکھے جائیں۔