اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں زرعی اصلاحات سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت، وفاقی حکومت کی جانب سے جواب داخل نہ کرایا گیا ، عدالت کا کل تک وفاق اور وزارت قانون کو جواب جمع کرانے کا حکم
سپریم کورٹ میں زرعی اصلاحات سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف ورکرز پارٹی کی درخواست کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کی وفاقی حکومت کی جانب سے جواب داخل نہیں کرایا گیا۔چیف جسٹس نے وفاق اور وزارت قانون سے استفسار کیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد لینڈ ریفارمز کی کیا حیثیت ہوگی، زرعی اصلاحات مرکزی کی ذمہ ہونگی یا صوبوں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایسے قانونی سوالات ہیں جس کا وفاقی حکومت کو جواب دینا ہوگا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل دو سو ترپن کے تحت ضروری ہے کہ عدالتی فیصلے کو آئین و قانون کے تناظر میں پرکھا جائے۔ درخواست گزار عابد حسن منٹو نے کہا کہ لینڈ ریفارمز پر عدالتی فیصلہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے، عابد حسن منٹو نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں انیس سو انچاس میں اصلاحات کر دیں۔
مغربی پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کی وجہ سیاصلاحات نہ ہوسکیں ، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آج کیوں خاموش ہیں ، کیا بات ہے ، الیکشن تو ہو چکے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وفاقی حکومت انتقال اقتدار کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔
شاید اسی لین وفاق کا موقف نہیں آ سکا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ہمارے سامنے اٹارنی جنرل موجود ہے ، انتقال اقتدار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔زمین صرف زراعت کیلیے لیز پر دی جاتی ہے ، کسی کا ذاتی قبضہ نہیں ہوجاتا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو زرعی اصلاحات سے متعلق وفاق کا جواب لینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔