اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے میمو کیس کے مرکزی کردار حسین حقانی کو چار ہفتوں میں وطن واپس لانے کا حکم دیدیا،عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں ان کے موکل کیخلاف جبری طریقے اپنائے گئے تو اپیل کا حق رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں میمو کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو آئین و قانون کے مطابق حسین حقانی کی وطن واپسی ممکن بنانے کا حکم دیا ہے۔ حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ رات حسین حقانی سے فون پر بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف اب وزیراعظم بن رہے ہیں۔
حسین حقانی کے خلاف جتنے لوگ تھے وہ اقتدار میں آ رہے ہیں ، وہ خود کارروائی کر لیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے، کسی کے وزیراعظم بننے سے فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ موجود ہے کوئی کسی سے زیادتی نہیں کرے گا۔عدالتیں مضبوط نہیں ہونگی توادارے بھی مضبوط نہیں ہونگے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ و اٹارنی جنرل کو کہہ سکتے تھے کہ حسین حقانی کا پاسپورٹ واپس لے لیا جائے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کہ میمو کمیشن کی رپورٹ آ چکی ہے ایک آپشن یہ ہے کہ حسین حقانی کے خلاف ٹرائل شروع کردیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حسین حقانی مجرم قرار نہیں پائے پھر بھی ان کا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا۔عدالت عظمی نے نئے وزیراعظم سے متعلق حسین حقانی کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے حسین حقانی کوچار ہفتوں میں وطن واپس لانے کا حکم دیا ، میمو کیس کی سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔