12 اکتوبر1999 کو فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے برطرف کیے گئے میاں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ 1981 میں پنجاب کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے سیاسی سفر شروع کرنے والے میاں نواز شریف کا سیاسی کیرئیر ہمیشہ اتار چڑھاؤ کی نظر رہا۔ نواز شریف نے سیاست کے میدان میں پہلی بار جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1985 میں وزارت اعلیٰ کی سیڑھی پر قدم رکھا۔ 1990 کے الیکشن میں وزارت عظمیٰ تک سیڑھی چڑھ گئے۔
لیکن اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وہ سیڑھی کھینچ کر میاں صاحب کو گراد دیا مگرپھر بھی میاں صاحب نے ہمت نہ ہاری اور سپریم کورٹ کے ذریعے اپنی حکومت بحال کرالی۔ حکومت کی بحالی کے باوجود 1993 میں آرمی چیف کی مداخلت نے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ دوسری بار1997 میں بھاری مینڈیٹ کاتاج نواز شریف کے سرپر پہنایا گیا۔ میاں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بنے۔ اس دوران اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے اختلافات پیدا ہو گئے۔
جس کی وجہ سے ان کی جگہ ایک جونیئر جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔ 12 اکتوبر 1999 کو اسی آرمی چیف نے نواز شریف کی مہربانیوں کا وہ درس دیا جس کو میاں خاندان مدتوں یاد رکھے گا۔ شاید یہ سبق اللہ تعالیٰ نے میاں صاحبان کو اس لیے دیا کہ وہ آئندہ کسی کی حق تلفی نہ کریں۔ پرویز مشرف کے اس غیر آئینی اقدام کی وجہ سے نواز شریف بارہ اکتوبر 1999کو پہلے راولپنڈی جیل پہنچے۔
اس کے بعد ملیر جیل سے ہوتے ہوئے اٹک قلعہ میں بھی قید رکھے گئے۔ طیارہ ہائی جیکنگ ، دہشت گردی ، اقدام قتل اور بد عنوانی کے الزامات کے تحت میاں نواز شریف کو پہلی بار عمر قید اور 14سال قید کی سزائیں سنا دی گئیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کو یہ سب منظور نہیں تھا اسی لیے نواز شریف کے کچھ دوست ممالک کے رہنماوؤں نے مداخلت کرتے ہوئے ان کی جان بخشی کرائی۔
ان ممالک میں سعودی عرب نے اہم کردار ادا کیا اسی لیے وہ 10 دسمبر 2000 کو سعودی عرب چلے گئے۔ سعودی عرب قیام کے دوران نواز شریف نے اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضہ لے کر اسٹیل ملز قائم کی کیونکہ پاکستان میں تو ان کی جائیداد کو ضبط کرلیا گیا تھا۔ جب 2004میں میاں برادران کے والد میاں شریف کا انتقال ہوا تو اس وقت بھی جنرل پرویز مشرف نے انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہ دی۔
Benazir Bhutto
2008میں عام انتخابات سے پہلے لندن میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے ۔ اسکے بعد پہلی بار 10 ستمبر 2007 کو پاکستان آنے کی کوشش کی لیکن انہیں ایئر پورٹ سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ دوسری بار 25 نومبر 2007 کو لاہور کی سر زمین پر اْترے توان کاوہ شاندار تاریخی استقبال کیا گیا کہ پوری دنیا نے لائیو دیکھا۔ 2008 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں شامل ہوئے اور مواخذے کا دباؤ ڈال کر صدر پرویز مشرف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔
وہ صدر جو کہتا تھا کہ” میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں” نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ ملک چھوڑ کر خود جلا وطنی اختیار کی۔ ججز بحالی کے معاملے پرمیاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے جس کی وجہ ن لیگ کو حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔25 فروری کو سپریم کورٹ نے شریف برادران کو سرکاری عہدے کے لیے نا اہل قرار دیاتو صدر زرادری نے پنجاب میں گورنرر اج نافذ کر دیا۔
میاں نواز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کی قیادت کی تو ان کی راہ میں بہت بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کیں مگر یہ لانگ مارچ سب رکاوٹیں گراتا ہوا جب گوجرانوالا پہنچا تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو مجبوراً ججز بحال کرنے پڑے اور اس طرح کامیابی نے میاں نواز شریف کے کے قدم چومے۔ 2 اپریل 2010 کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تیسری بار وزارت عظمیٰ پر پابندی ختم کرائی اور 26 مئی کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیا۔
2013 کے عام انتخابات تک قومی اور عوامی ایشوز پر وفاق میں ایک اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور 11 مئی کے عام انتخابات میں بالاخر ایک بار پھر کامیابی نے ن لیگ کے قدم چومے۔ پاکستان میں تاریخ رقم کرنے کے لیے میاں نواز شریف ایک بار پھر وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھادیا گیا۔ یہ کالم ان لوگوں کی نظر ہے جو میاں بردران کو پھانسی کے پھندے پر (اللہ نہ کرے) یا جیل کی کال کو ٹھریوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔
مگر اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت۔آج میاں نواز شریف نے تیسری بار وزیراعظم بن کر پاکستان میں ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے ۔ 14 ماہ کال کوٹھڑی کی قید،6 سال ساڑھے 11 ماہ کی جلا وطنی اور وطن واپسی پر 5 سال 6 ماہ کی سیاسی جدوجہد سے میاں نواز شریف نے کیا۔
کچھ سیکھا اس کا تو پتا اب چلے گا کہ وہ پاکستان کو کس طرح ان مسائل سے نکالیں گے جن میں یہ ملک پھنسا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ بطور وزیر اعظم ان کے اقدامات سے ہو جائے گا۔ اس بار عوام کو میاں نواز شریف اور ان کی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ کس حد تک عوام کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں اور ملک میں خوشحالی لاتے ہیں۔