لاہور ہائی کورٹ نے خسرہ سے ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو کام سے روکتے ہوئے نئی تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔ کمیٹی غفلت کے مرتکب افسران کا تعین کر کے دس روز میں رپورٹ پیش کرے گی۔
جسٹس خالد محمود خان نے کیس کی سماعت کی۔ سرکاری وکیل نے بیان دیاکہ حکومت خسرے کی روک تھام کے لیے تمام تر انتظامات کررہی ہے مگر کسی کی موت کو روکا نہیں جا سکتا۔ عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے قرار دیا کہ کسی کی موت کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر اگر غفلت سے کوئی بچہ جاں بحق ہوا تو اس کا ذمہ داربچ نہیں سکے گا۔ جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیئے کہ لوگ فٹ پاتھ پر مر رہے ہیں اور ڈاکٹر گپیں لگاتے گزرجاتے ہیں ۔
کسی ہسپتال میں ویکسین موجود نہیں بچے مررہے ہیں اورسرکاری خط وکتابت میں وقت ضائع کیا جارہا ہے معصوم بچے مررہے ہیں ہم آرام سے کیسے سو سکتے ہیں۔ عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے خسرہ کی وبا کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کو کام سے روکتے ہوئے ہوم سیکرٹری اور ڈی سی او لاہور سمیت تین افراد پر مشتمل نئی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے حکم دیا۔
کمیٹی دس روز میں ذمہ داروں کا تعین کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے ۔ عدالت نے کمیٹی کو ہدایات جاری کیں کہ وہ فنڈز کی کمی، ہلاکتوں کی وجوہات اور ویکسین کے معیار کے متعلق بھی تفصیلی رپورٹ پیش کرے ۔ کیس کی مزید سماعت پچیس جون تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔