پاکستان کے لئے ایک بہت بڑامسئلہ کلاش نکوف، تشدد اورہتھیاروں کے کلچر سے نجات حاصل کرکے علم، کتاب اور قلم کے کلچرکا نفاذ ہے، چیئرمین ناہید حسین

کراچی : اربن ڈیمو کریٹک فرنٹ (UDF)کے بانی و چیئر مین ناہید حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے لئے ایک بہت بڑامسئلہ کلاشنکوف، تشدد اور ہتھیاروں کے کلچرسے نجات حاصل کر کے علم، کتاب اور قلم کے کلچر کا نفاذ ہے لیکن نئے بجٹ کی وجہ سے کتابیں، کاپیاں اور قلم جیسی ضروری اورعلم کے حصول اور پھیلائوں کے لئے بنیادی اشیاء بھی مہنگی ہوگئی ہیں ان حالات میں غریب اور متوسط طبقے کے لئے اپنے بچوں کو پڑھانا، تعلیم دلوانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔

پاکستان تعلیم کے معیار، شرح خواندگی اورمجموعی قومی آمدنی کاسب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیاہے۔اب کتابوں،قلم،کاپیاں اوردیگرضروریات علم کومہنگاکرنے سے ملک میں علمی اورتحقیقی سرگرمیوں کتابوں کی اشاعت پرمنفی اثرات مرتب ہونگے۔ ناہید حسین نے کہاکہ موجودہ بجٹ نے غریب اورمتوسط طبقے کی امیدوں پرپانی پھیردیاہے کیونکہ اس بجٹ سے مہنگائی میں بے حد اضافہ ہوا ہے نئی شرح سے سیل ٹیکس کی وصولی بجٹ کے اعلان والے روزرات 12 بجے ہی سے شروع ہوگئی تھی۔

اس کے لئے پارلیمنٹ سے منظوری بھی ضروری نہیں سمجھی گئی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بجٹ 2013-14 پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ناہید حسین نے مزید کہا میاں محمد نواز شریف کی نو منتخب حکومت سے عوام کو بہت بڑی توقعات وابستہ تھی سب سے بڑی توقع یہ تھی کہ عوام مہنگائی کی چکی میں بہت بری طرح پس رہی ہے اور اس کی خواہش تھی کہ نئی حکومت انہیں ریلیف فراہم کرے گی۔

لیکن ایسا نہیں ہوا اور عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ بجٹ غریبوں کا نہیں بلکہ سرماداروں اور جاگیرداروں کا بجٹ ہے انہوں نے کہا کہ 3591 ارب روپے کے وفاقی بجٹ میں 1049 ارب روپے قرضوں اور سود کے لئے مختص کئے گئے ہیں جوکہ کل بجٹ کا 32% فیصد ہے دفاع کے لئے رقم 970 ارب روپے ہے جوکل بجٹ کا 27% فیصد ہے جبکہ دفاع ،قرض اورسودکے لئے مختص کی جانے والی رقم کا مجموعہ 2019 ارب روپے ہے جوکل بجٹ کا 59% فیصد ہے یعنی نصف سے زائد جوگویا صرف دفاع اور قرض و سود کی ادائیگی کے لئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ 1155 ارب روپے ہے جو کہ کل بجٹ کا 32% فیصد ہے اور ٹیکسوں کے حصول کے لئے 2598 ارب روپے کا حدف رکھا گیا ہے جبکہ 2012-13 کے لئے 2124 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ براہ راست ٹیکسوں کاہدف 975 ارب 70 کروڑ روپے ہے جو کل ٹیکس ریوینیو کا صرف 37.55% فیصد ہے جبکہ ان ڈائریکٹ یعنی بلاواسطہ ٹیکس کا تناسب 62.45% فیصد ہے ناہید حسین نے کہا کہ ٹیکسوں کا یہ نظام انتہائی ظالمانہ، غیر مساوانہ ہے جس میں سے 6 سے8 ہزار روپے کمانے والا ایک مزدور بھی صابن سے لیکر اہم ضروریات پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔

ایک بیروزگار شخص کوبھی ٹیکس دینا پڑتا ہے اور کروڑوں کمانے والابھی اسی شرح سے ٹیکس دے رہاہے۔ ٹیکسوں کے نظام سے غریب، غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ بجٹ کا خسارہ مجموعی بجٹ کا 46% فیصد ہے اورا سی وجہ سے بجلی، چینی، تیل، گھی، دودھ جیسی ضروری اشیاء مہنگی ہونے سے عوام کا جینا دو بھر ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر جنرل سیل ٹیکس(GST) میں اضافے کو واپس لے کر عوام کو ریلیف دے۔