حکمرانو! فیض پہنچاتے رہو سب کو شجر کی طرح

Budget

Budget

بجٹ کے بعد اور ہڑتالوں کے اعلان پر سرکاری ملازمین کو 10 فیصد کی بھیک دے دی گئی ہے۔ چونکہ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے اس لئے یہ دس فیصد کی اضافی رقم کا پتہ جب چلے گا جبب لیٹر جاری ہو گا کہ انہوں نے یہ بڑھوتی بھی رننگ بیسک پر دی ہے یا بنیادی پر۔ کیا اس دس فیصد کا بڑھنا اور اس کے لاگو ہونے سے سرکاری ملازمین کی کسمپرسی کم ہو سکتی ہے یہ بھی سوچنا نئی حکومت کی ہی زمہ داریوں میں شامل ہے، کیا آپ احباب کو اندازہ ہے کہ اگر تیس ہزار تنخواہ پانے والے کے گھر کے افراد اگر چھ ہوں تو وہ باآسانی، مہینے کا راشن، دکھ بیماری، اسکول کی فیسیں، اور سبزی و گوشت وغیرہ پورے مہینے آسانی سے کھا پی سکیں گے؟ میرے خیال میں نہیں کیونکہ مہنگائی کا تناسب ان کی تنخواہوں سے دگنی ہے۔ اس وقت مرغی کا گوشت تین سو روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے اور بڑے کا گوشت چار سو روپئے کلو ہے۔

ادنیٰ ٹماٹر جو ہر کھانے کی جان ہوتی ہے اس کی قیمت بھی ساٹھ سے ستر روپئے کلو ہے۔ سکول کی فیسوں کی تو خیر کیا ہی بات کی جائے گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسیں بھی وصول کی جاتی ہیں اور وہ بھی ایڈوانس میں! جو کہ سراسر ناجائز ہے، جب چھٹی ہے تو پھر پڑھائی ہوئی نہیں اور جب پڑھائی ہوئی نہیں تو فیس کیسی؟ مگر ہمارے یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ نئی حکومت، نئے وزیراعظم، نئے وزراء یعنی کہ پوری مشینری تبدیل۔ یہ تھا عوام کا احتساب! جو انہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے لیا۔ چونکہ کئی سیاستدان ابھی تک نتائج کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں اس کی وجہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ عوام تو یہ دیکھ رہی تھی بلکہ محسوس کر رہی تھی کہ ہم نے تبدیلی لاکرسب کچھ تبدیل کر دیا ہے تو اسی طرح حکومت کابھی فرض بنتاتھا کہ وہ الیکشن سے پہلے کئے گئے اپنے وعدے پر قائم رہتے۔ خزانہ خالی ہے یا تھا یہ تو انہیں بھی الیکشن سے پہلے معلوم تھا۔

Inflation

Inflation

جب تمام صورتحال سے آگاہی تھی تو پھر ایسے وعدے ہی نہیں کرنے تھے کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کو یکسر نظر انداز کر دینا بلاشبہ تنقید کا حدف بن جانے کے لئے کافی تھا۔ کل ہی ایک شخص یہ کہتا ہوا پایا گیا کہ پچھلی حکومت مہنگائی توکر رہی تھی مگر تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ بھی کر دیتی تھی۔ مگر اس بجٹ میں تو تنخواہ دار طبقے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور مہنگائی بھی مزید بڑھا دی گئی جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ عوام کو ہر سطح پر احساسِ کمتری میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے معاملے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ابھی تک پسماندہ ہیں۔جب کہ ایسا صرف غریب عوام ہی کے ساتھ ہے ملک کا امیر طبقہ توپسماندہ لفظ سے واقف ہی نہیں ہیں۔عوام سیاسی پارٹیوں کو مضبوط بنانے میں مصروف ہیں مگر حکمران ہمیشہ عوام پر شب خون مارتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی ہنوز جاری ہے۔

عوام کی ترقی کا خیال رکھنا اور سہولتیں بہم پہنچانا بھی حکمرانوں کا ہی کام ہے اگر ایسا نہیں ہے تو بھائی چارہ اور انسانی قدروں کا زوال لازمی ہے۔ مہنگائی سمیت دیگر مسائل کے سلسلے میں بھی عام آدمی فکرمند ہی نظر آتا ہے مگر ہمارے یہاں عوام کی حفاظت کے سوال پر سیاست کرنے والوں کا ضمیر انہیں سرزنش نہیں کرتا، کیا عام آدمی کا یہ حق نہیں کہ اُسے بنیادی مسائل سے نجات مل جائے، بنیادی مسائل کی بھی کوئی لمبی چوڑی لسٹ نہیں بلکہ چند بنیادی مسائل ہی حل ہو جائے تو عوام اس پر قناعت کر سکتی ہے جن میں لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، روزگار کی فراہمی امن و امان وغیرہ۔ ہر حکومت خزانہ خالی ہے! کہ رٹ لگاتی ہیں تو یہ خالی خزانہ بھی غریب و بے کس عوام کا حق مار کر بھرا جائے گا۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک جن سیاستدانوں نے ملک کا خزانہ لوٹ کر خالی کر دیا ہے اگر وہی واپس لے لیا جائے تو خزانہ بھر سکتا ہے۔

آج جو امیر ترین لوگ ملک کے طول و عرض میں ہیں ان کی اسکروٹنی اُس وقت سے ہی کرائی جائے تو سب کو پتہ چل جائے گاکہ وہ اُس وقت کیاتھے، ان کا بینک بیلنس کتنا تھا اور وہ آسودہ حال کیسے ہیں اور ان کا بینک بیلنس آج کیوں عروج پر ہے انہیں بھی کٹہرے میں لایاجائے اور ان سے کرپشن کے ذریعے کمائی گئی دولت واپس لے لی جائے تو بھی ملک کا خزانہ بھر سکتا ہے۔ زرعی زمینوں کے مالکان پر بھی پرانے وقتوں سے ہی ٹیکس عائد کیا جائے تو ملکی خزانہ بھرسکتا ہے مگر ایسا کرے گا کون… پچھلے دنوں حکمراں پارٹی کے ہی ایک فرد جیسمین منظور کے پروگرام میں فرما رہے تھے کہ یہ لابی بہت مضبوط ہے جو ایسا ہونے نہیں دیتی۔تو بھائی صاحب حکمرانوں کا کام بھی یہی ہونا چاہیئے کہ جو لابی مضبوط ہو اسے احتساب کے دائرے میں کھڑا کرے۔

Election

Election

نہ کہ غریب عوام کا خون چوسا جائے۔ افسوس! یہاں پر راقم اس شعر کا اندراج کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ شعر تو مختصر لفظوں میں اور اشارے کنایوں میں سب کچھ سمجھا دیتا ہے۔ آپ بھی پڑھیئے اور سمجھئے!!!
مرا شرف کہ تو مجھے جوازِ افتخار دے
فقیرِ شہرِ علم ہوں زکوٰةِ اعتبار دے
قیامتیں گزر رہی ہیں کوئی شہسوار بھیج
وہ شہسوار جو غریبوں کو مسائل سے نجات دے
ہمارے یہاں سرکار تو بدل گئی ہے مگر غریب عوام کے حالات نہیں بدلے۔ رات دن بجلی کا رونا جاری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ امتحانوں کے دوران بھی بچوں کو امتحان کی تیاری کرنے کے وقت بجلی میسر نہیں ہو پاتی۔ الیکشن کا وقت آتے ہی ہر لیڈر عوام کی
طرف بھاگتا ہے اور الیکشن ختم ہوتے ہی کوئی ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ مایوسی، لاچاری اور دھوکہ ہی عوام کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں اگر گہرائی سے انسانی حقائق کا مطالعہ کیا جائے تو چہار جانب مایوسی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں کیونکہ دنیا جس تیزی سے ترقی کر رہی ہے پاکستانی عوام اسی تیزی سے پستی کی طرف رواں دواں ہیں۔

ان کے چہرے سے خوشی کی لہر و مسکان غائب ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں امیر لوگ پُر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں وہیں غریب عوام بے چین اور بے قرار نظر آتے ہیں۔ آخر اس ملک میں یہ تفریق کیوں ہے؟ یہ تفریق ختم ہونی چاہیئے تاکہ سبھی عوام پیار و محبت سے اپنے اپنے مسائل سے نجات پا سکیں اور ہمارا یہ ملک ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکے۔ واضح رہے کہ زندہ قومیں جس قدر کو معاشرے میں سب سے پہلے عام کرتی ہیں وہ یہی ہے کہ حکمران اچھے، بااخلاق اور عوامی خیر خواہی رکھتے ہوں۔ کیونکہ اگر ہمیں اپنے ملک سے ظلم و ناانصافی کو ختم کرنا ہے تو اس کے لئے ہر ایک کو انصاف دینا ہو گا، ہر ایک کو اس کا حق لازمی دینا ہو گا۔ امن و امان دینا ہو گا وگرنہ ملک میں بغیر امن و انصاف کے مسائل ختم ہونے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
کسے معلوم ہے جاوید کہ ہم کو
کہاں لے جائے یہ مسائل ہمارا
بڑی سنگین ہے غفلت ہماری
بڑا ہشیار ہے دشمن ہمارا
تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی