اللہ کے فضل و کرم، مسلمانوں کی لازوال قربانیوں اور قائداعظم کی بے مثال اور جرأت مندانہ قیادت کی بدولت 14اگست 1947ء ، 27 رمضان المبارک بروز جمعة المبارک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آج ہم اسلامی ملک میں بیٹھ کر صرف اس لیے اپنی من مانیاں اور لوٹ کھوسٹ کر رہے ہیں کہ ہم اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس وطن کے حصول کے لیے مختلف جگہوں پر جو فرمایا وہ ہم مکمل طور پر بھول چکے ہیں اور اب تو سیاستدان ہو یا بیوروکریٹ، زمیندار ہو یا دکاندار ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم اس ملک کو لوٹ کر کھا جائیں۔
کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پا ک نہیں ہے۔ حتیٰ کے تعلیم جیسے محکمے کو بھی نہیں بخشا گیا جس پیشے کو پیشہ پیغمبری بھی کہا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہمارے قائد نے 3 جولائی 1943ء میں مسلم لیگ بلوچستان کے ایک اجلاس میں فرمایا تھا ”یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنایت کی ہے صرف حفاظت کے لیے اٹھے گی۔ فی الحال آپ کے لیے جو سب سے ضروری امر ہے وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔”
قائد کے پاکستان کا آج یہ حال ہے کہ اس کا کوئی بھی شعبہ ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ نظام تعلیم کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ ہمارے حکمران معیار تعلیم کا واویلہ تو بہت کرتے ہیں مگر نظام تعلیم نہیں بدلتے۔ ٹھنڈے کمروں اور گھومنے والی کرسیوں پر بیٹھے لوگ کو صرف اپنی جیبیں بھرنے سے غرض ہے۔ ان کی بلا سے کل ہونے والا پیپر ایک دن پہلے ہی آؤٹ ہو جائے۔ ان کو ملک کی ترقی یا تنزلی سے کوئی غرض نہیں۔
مہنگائی کی آگ میں پورا ملک جل رہا ہے مگر مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں رینگتی ہو۔ ہر دوسرے دن پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس میں اضافے کے ساتھ ہر چیز میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے جیسے ہر چیز پٹرول سے بنتی ہے۔ رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے جی ایس ٹی لگا کر پوری کردی۔ اب ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔
رہا سوال امن و امان کا تو پاکستان میں امن امان نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اپنے تو اپنے اب تو دوسرے ملکوں سے آکر لوگ ہمارے لوگوں کو مار کر چلے جاتے ہیں اور ہم صرف زبانی کلامی بیان بازی کر کے رہ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی ٹارگٹ کلنگ کی نظر ہو رہا ہے تو کوئی خود کش حملہ آورں کے ہاتھوں مارے جارے رہے ہیں اور اگر ان سے کوئی بچ گیا ان کو ڈرون حملے اور نیٹو حملے کے ذریعے مارا جا رہا ہے۔اپنے ملک میں اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے حکمران اپنے ہاتھوں سے ہمیں مروا رہے ہیں۔
Quaid-e-Azam
اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جس قائد نے ہمارے لیے یہ ملک حاصل کیا اب اس قائد کی رہائش گاہ کو تخریب کاری کے ذریعے اڑایا جا رہا ہے۔ کیا وہ لوگ جو یہ حرکت کر رہے ہیں پاکستانی کہلانے یا پاکستان میں رہنے کے حقدار ہیں؟ قائد کی روح بھی سوچنے پر مجبور ہوگی کہ میں نے کیسے لوگوں کے لیے الگ وطن حاصل کیا جو دشمن کو للکارنے کی بجائے بزدلی کا مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ قائد کا پاکستان جگہ جگہ سے لہولہان ہے مگر اس پر مرہم رکھنے کی کسی میں ہمت نہیں۔
قیام پاکستان کے بعد 18اگست 1947ء کو عید کے دن قائد اعظم نے فرمایا تھا: ” اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے لیکن یہ تو محض آغاز ہے۔ اب بڑی ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں اور جتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں اتنا ہی بڑا ارادہ اور اتنی ہی بڑی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئیں ہیں، جو کوششیں کی گئیں ہیں پاکستان کی تشکیل و تعمیر کے لیے بھی کم ازکم اتنی ہی قربانیاں اور کوششوں کی ضرورت پڑے گی۔ حقیقی معنوں میں ٹھوس کام کا وقت آ پہنچا ہے اور مجھے پورا پورا یقین ہے کہ مسلمانوں کی ذہانت وفطانت اس بارِ عظیم کو آسانی سے برداشت کر لے گی اور اس کا بظاہر پیچیدہ اور دشوار گزار راستے کی تمام مشکلات کو آسانی سے طے کر لے گی”۔
قائد اعظم کے اس فرمان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کی عوام تو واقعی اپنے قائد کے فرمان کے مطابق قربانیاں دے رہی اور ایک ایسے پاکستان کی تشکیل نو کی کوشش کررہی ہے جس کا خواب قائد اعظم نے دیکھا۔ ہر بار ہم یہ سوچ کر ملک کی قیادت ان لوگوں کو سونپ دیتے ہیں کہ شاید یہ ملک کے لیے کوئی مثبت اقدا م اٹھائیں گے۔ مگر عوام ہر بار ان سے مایوس ہوتی ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا: ”تعمیر پاکستان کی راہ میں مصیبتوں اور دشواریوں کو دیکھ کر گھبرائیے نہیں۔ تازہ جوان اور نئی اقوام کی تاریخ میں کئی باب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ انہوں نے محض قوت ارادی ، قوت عمل اور قوت کردار سے خودکو بلند کر لیا۔
آپ خود بھی فولادی قوت کے مالک ہیں اور عزم و ارادے کی دولت میں آپ کی نظیر نہیں ملتی۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آپ دوسروں کی طرح، اپنے آبائو اجداد کی طرح کامیاب نہ ہوں۔ آپ ایک ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ شجاعت، کردار اور آہنی ارادے کے لوگوں اور کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ اپنی شاندار روایات کے مطابق زندہ رہیے بلکہ ان میں عظمت وشوکت کے ایک اور باب کا اضافہ کیجئے۔”
آج ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا واقعی پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت ہے اگر نہیں اور واقعتا نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ اس کو خودمختار اور اسلامی ریاست بنائیں؟ پہلے تو عوام ہی مررہی تھی اور اس کا مالی نقصان ہو رہا تھا مگر اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہمارے قائد کی رہائش گاہ تک محفوظ نہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم مسلمان اور پاکستان کے محافظ ہونے کے ناطے اپنے ملک کی حفاظت کریں اور قائد کے بنائے ہوئے پاکستان کی دل و جان سے حفاظت کریں تاکہ ہمارے قائد کی روح کو چین آسکے اور جس مقصد کے لیے انہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ مقاصد حاصل کر سکیں۔