کابل(جیوڈیسک) افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت اس وقت تک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل نہیں ہو گی جب تک بات چیت کا یہ عمل افغان قیادت میں نہیں ہوتا۔ افغان صدر کی جانب سے امن مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک دن پہلے ہی امریکہ نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہے۔
طالبان نے منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دفتر کھولا ہے۔ اس سے پہلے بدھ کو افغان صدر حامد کرزئی نے کابل میں امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کے معاملے پر معاہدے کے سلسلے میں جاری دو طرفہ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق افغان مذاکرات کار اس وقت تک قطر بات چیت سے دور رہیں گے جب تک غیر ملکی طاقتیں اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ عمل افغان عوام چلائیں۔
جب تک امن مذاکرات کا عمل افغانستان کے ہاتھ میں نہیں آتا، اعلی مذاکرات کونسل قطر میں طالبان سے مذاکرات میں شرکت نہیں کرے گی۔ افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق افغان مذاکرات کار اس وقت تک قطر بات چیت سے دور رہیں گے جب تک غیر ملکی طاقتیں اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ عمل افغان عوام چلائیں۔ صدر حامد کرزئی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان امن مذاکرات کے حوالے سے امریکی حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ تنازع کی وجہ منگل کو قطر میں کھولے گئے طالبان کے دفتر کے نام کے بارے میں ہے۔ معطل کیے گئے مذاکرات میں افغانستان میں 2014 بین الاقوامی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکی فوجوں کی موجودگی کی نوعیت پر بات کی جا رہی تھی۔
ترجمان نے بتایا صدر کرزئی طالبان کے دفتر کے نام کے بارے میں خوش نہیں ہیں۔ ہم اس نام امارتِ اسلامی افغانستان کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ایسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا امریکا اس سلسلے میں صدر کے موقف سے واقف تھا۔