ترکی کے کچھ حقائق

Frog

Frog

مینڈک کی مانند کنوئیں کو ہی ساری دنیا کہنے والے آج تک مخالف رائے رکھنے والے کو دشمن گردانتے ہیں۔ زہر آلود لہجے میں گفتگو کرتے ہیں اور اپنے لہجوں چہروں اور الفاظ پر نقاب چڑھائے رکھتے ہیں منافقت کا دورنگی کا۔ ترکی کو اتاترک نے کیا دیا یہ تاریخ کے جنگل میں محفوظ ہے۔ لیکن اردگان نے کیا دیا یہ سب کچھ آنکھ سے دیتے ہوئے بھی چند لوگ نہیں مانتے۔ ایک صاحب نے جن کے مخصوص انداز بیاں سے مجھے انس بھی ہے اور اُن کی رائے اور صحافتی مرتبے کا احترام بھی کرتا ہوں۔

لیکن انہوں نے بلی کے سامنے موجود کبوتر کی مانند آنکھیں بند کرتے ہوئے متاسف لہجے میں نہایت کثیف بات کی(انکی لطیف باتیں بھی بہت ہوتی ہیں مگر یہ۔۔)کہتے ہیں کہ ترکوں سے اُن کی شناخت چھینی جارہی ہے۔ یعنی اتاترک کی پالیسیاں کالعدم قرار دینے سے ترکی کی عوام میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے۔ سانحہ کے اصل محرکات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کہ سامنے آتی ہے کہ ترکی کا وہ پوش طبقہ جو سیکولر ہے اپنی لادینیت کے گرد مضبوط ہوتی زنجیروں سے پریشاں ہیں۔

ان کے مظاہرے ابھی تک محض آٹھ سے نو ہزار افراد بھی بیک وقت اکھٹے نہیں کر پائے۔ یہی وہی طبقہ ہے جس کے نمائندوں نے پہلے ایک نیک نیت وزیر اعظم کو تختہ دارتک پہنچایا مگر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے شب خون مارنے والوں کے پر جھلس چکے ہیں۔ طبیب اردگان نے بیمار ترکی کے جسد میں روح پھونکی اور اب آٹھ کروڑ آبادی والے اس ملک میں زر مبادلہ کہ ذخائر 135ارب ڈالر ہیں۔

حالیہ رپورٹس کے مطابق اب بھی ترکی کی 55 فیصد آبادی اردگان سے محبت کرتی ہے جبکہ الیکشن سے قبل یہ شرح 52 فیصد تھی۔ جبکہ الوائٹ کہ احتجاجی گروہ بہت کم تعدادمیں ہیں جنکے پیچھے کئی لامبے لامبے ہاتھ ہیں۔ پورے ترکی میں الوائٹ چھ ساڑھے چھ لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ الوائٹ مسلمان ہیں یانہیں ‘انکا تعلق ایران و پاکستان کے اثناعشری شعیہ لوگوں سے ہے کہ نہیں اس بارے میں ایک طویل مضمون درکارہے فی الحال ہم اسی بات پر اکتفا کرتے ہیں کہ شام کے بشارالاسد الوائٹ ہیں۔ اور انہوں نے شامی عوام کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔

Turkey

Turkey

شاید نیرو والا محاورہ ان پر صادق آتا ہے’کہ شام جل رہا ہے اور بشارالاسد بانسری بجا رہے ہیں(روم کے بادشاہ نیرو پر الزام ہے کہ اس نے محض اپنے شوق تماشا کی خاطر روم کے گھروں کو آگ لگوائی اور جب رومی اور روم جل رہے تھے تو نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا لیکن مجھے یہ کمزور روایت معلوم ہوتی ہے مگر محاورے کا استعمال درست ہے کیا سمجھے)۔ جب طبیب اردگا سیاست میں آئے تو چشم دید لوگ بیان کرتے ہیں کہ اسوقت تک ترکی کہ ایک بڑے شہر میں ایک کھیل کھیلا جاتا تھا۔

اس میں خواتین ایک مخصوص دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے جسد خاکی کو لباس کی بندشوں سے آزاد کرواتی تھیں۔ اور جس کا انداز سہانا ہوتا وہی چیمپیئن ہوتا۔ کیا کوئی آفاقی مذہب اس قبیح فعل کو لائق تحسین قرار دے سکتا ہے؟ کیا اس قدر لہو لعب میں مبتلا معاشرہ تندرست و توانا کہلانے کا حقدار ہے؟ آپ قرآن مجید فرقان حمید انجیل مقدس تورات شریف میں ایسے افراد کی سزائیں اور ان سے کنارہ کش رہنے اور انہیں باز رکھنے کی تعلیمات پڑھ سکتے ہیں پڑھیئے اور خود فیصلہ کیجئے۔ اتاترک کی رائے کس قدر مضبوط اور اچھے نتائج کی حامل تھی؟ اگر جانچنا چاہیں تو اردگان سے پہلے کاترکی دیکھ لیں آپ یقیناً کھری اور کھوٹی انتظامیہ کو وکھرا کر لیں گے۔ لیکن یاد رہے محترم تعصب کی عینک اتارکے پڑھیئے گا۔

گزشتہ دنوں ترکی میں جو سب سے بڑا مظاہرہ ہوا وہ ترک عوام نے طبیب اردگان کے حق میں کیا۔ کیا لادینیت کے علمبردار دانشور طبیب اردگان کے مخالفین کا اتنا بڑا یا اس کے نصف لوگوں کا اجتماع دکھا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں میں شامل سب سے بڑی تعداد الوائٹ افراد کی ہے۔ یہ بشارالاسد کہ ہم عقیدہ لوگ ہیں۔

Syrian government

Syrian government

انہیں شامی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اُس شامی حکومت کی جس نے اقتدار کی خاطر اپنے ہی ملک کے کم وبیش 93ہزار لوگوں کو موت کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا۔ لاکھوں اپاہج ہو کر حسرت ویاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مزید وہ قوتیں بھی ایسے مظاہروں کو میڈیا وار کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں جنھیں مسجد میں شراب پینا ایک اخلاقی عمل جبکہ عربی میں اذان دینا اور اپنی عصمت کی حفاظت کرنا غیر اخلاقی حرکت لگتی ہے۔

نجانے لوگ اپنی ہی رائے کو کیوں دوسروں کی گردن پر تھوپنا چاہتے ہیں آزاد منش لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ عقیدے سے زیادہ محبوب شہ کوئی نہیں ہوتی۔ انکی لادینیت کے بھی تو قانون ہیں اور جب وہ اپنی لادینیت کو دانشوری سمجھ کر اس پر عمل پیراہیں تو پھر کسی مذہب کے ماننے والوں کی جان کے دشمن کیوں بنے پھرتے ہیں ۔اہل مذہب بھی تو ایک دائرے اورقانون کے ماتحت ہیں۔ المختصر انتہا پسندی لبرال ازم کی ہو یا مذہبی دونوں ہی انسانیت کیلئے تباہ کن اثرات رکھتی ہیں۔

لبرل انتہا پسندوں کو دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا ترکی ڈوبتا ہوا نظر آرہا ہے کیونکہ ترکی اپنے دشمنوں کو خوب پہچانتا ہے۔ اگر طبیب اردگان نے صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑا تو میں سمجھتاہوں آنے والے دنوں میں ان کے مخالفین کے جو مذموم منصوبے(تیس جون کے لگ بھگ) ہیں وہ ناکامی کامنہ تکیں گے ۔اور ترکی ترقی کی اوج ثریاتک پہنچ جائے گا۔اء نشااللہ ۔

تحریر : سمیع
0333_9838177@yahoo.com