انتخابات کے دوران اور اختتام تک ملک میں دہشتگر دانہ کا روائیوں کا سلسلہ تھما رہا جو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا رہا تھا اور ملک پہلے سے کچھ پر امن حالات میں تھا اخبارات پر بم دھماکوں اور قتل و غارت کی سرخیاں بہت کم پڑھنے کو ملتی تھیں، اور پھر میاں محمد نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور دنیا بھر سے مبارک بادوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور میاں محمد نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہو کر ایک نئی ملکی تاریخ رقم کی۔
مبارک بادوں کا سلسلہ تھما تو جب بات چلی بلوچستان حکومت کی اور مسلم لیگ ن کی طرف سے بلوچستان میں بھاری اکثریت کے باوجود امن قائم کرنے کے لئے بلوچستان حکومت کا قلمدان بلوچ قوم پرستوں کو ہی سونپ دیا گیا تب سے بلوچستان کے دل کوئٹہ میں میں دہشت گر دانہ کا روائیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ جس نے ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے ان کاروائیوں سے یہ تشویش لاحق ہو رہی ہے کہ کیا یہ سب کچھ ن لیگ کی حکومت کو ناکا م بنانے کے لئے ایک سازش کے تحت سب کیا جارہا ہے۔
جبکہ ن لیگ کی طرف سے بلوچستان میں حکومت کی قربا نی دی گئی اور وزارت اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو سونپی گئی تا کہ امن قائم ہو سکے لیکن گزشتہ دنوں بانی پاکستان قائد اعظم کی زندگی کے آخری لمحات کی ایک نہایت قیمتی نشانی زیارت ریزیڈنسی کو دہشت گردوں کی طرف سے رات گئے راکٹ فائر کر کے تباہ کر دیا گیا اس روح شکن کا روائی پر ہر پاکستانی کا دل خون کے آ نسو بہا رہا تھا، جس وقت یہ حملہ کیا گیا آسمان بھی روئے بغیر نہ رہ سکا موسلا دھار بارش کا پو رے ملک میں ایک سلسلہ جاری رہا، شاید دہشت گردوں کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ہماری جانیں دہشتگردی کی نذر ہو رہیں تھیں اس کا ہمیں اس قدر ملال نہیں مگر ہمارے عظیم لو گوں ،لیڈروں کی طرف سے ملنے والے ثقافتی ورثوں پر بھی اب حملے کیے جائیں گے، ہمارے نظریات پر حملے کیے جائیں گے، عظیم لیڈروں کی یہ یا دیں کسی قوم کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں ہوتیں، قوم کا حوصلہ بڑھانے کا ذریعہ ہوتیں ہیں، صد افسوس کہ حکومت کی جانب سے بھی قائد کے ورثے کی حفاظت کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے۔
Fire Brigade
ڈی پی او زیارت نے کہا کہ آگ پر قا بو پا نے کے لئے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں، ارے اس حادثے کا سن کر تو اگر ہوئی جہاز اڑانا پڑتے تو وہ بھی اڑا دئیے جانے چاہیے تھے، بھئی جہاز اڑائے بھی کیوں جاتے یہ حملہ کونسا رائیونڈ، چا رسدہ، ڈیرہ اسما عیل خان، بلاول ہائوس یا نائین زیرہ پر کیا گیا تھا افسوس محسن مسلما نانِ برصغیر کے لئے بھی روایتی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا، اگر دقیق نظری سے اس سانحہ کو دیکھا جائے تو یہ صرف ایک ریذیڈنسی پر ہی حملہ نہیں بلکہ ہمارے نظریات پر حملہ کیا گیا ہے۔
ہمیں ایک بہت بڑی نظریاتی مات دینے کی کوشش کی گئی ہے، اس لئے اب حکومت کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے یہ بات بھی طے ہے کہ ہمیشہ مذہب اور تہذیب و ثقافت نے ہی قوم کو بچایا ہے اور پیارے قائد کی زندگی سے وابستہ تمام چیزیں ایک عظیم ثقافتی ورثے کی حثییت رکھتی ہیں جن کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنا ہمارا فرض عظیم ہے، وہ قائد جس نے اپنی ساری زندگی ہمارے قیمتی اثاثوں کو محفوظ کرنے میں لگا دی اس نے ہر گزیہ سوچ کر پاکستان نہیں بنایا تھا کہ ایٹمی طاقت ہو کر بھی ہم اس قدر کمزور ہوجائیں گے۔
کہ جو مرضی، جس وقت مرضی چاہے جس چیز کو مرضی تباہ و برباد کر دے اور ہم بے حسی کی نظروں سے فقط تماشہ دیکھتے رہیں مگر ہم مسلمان اس قدر کمزور ہیں نہیں جس قدر ہم لوگوں نے اپنے اندر احساس پیدا کر رکھا ہے ہم لوگ اگر چاہیں تو تین سو تیرہ کا لشکر ایک ہزار کی فوج والے لشکر کو شکست فاش دے سکتا ہے ہم اگر چاہیں تو تیرہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم دیبل کو فتح کر سکتا ہے ہم اگر چاہیں تو کشتیاں جلا کر 12 ہزار کی فوج سے ایک لاکھ فوج کے لشکر کو شکست دے سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں۔
قا ئد کی یادوں کو جلانے کے ساتھ ساتھ سے ہمیں تعلیمی نظریاتی مات بھی دینے کی کوشش کی گئی اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی بس میں بم دھما کے کیے گئے جس سے 12 معصوم طالبات شہید ہوئیں، تعلیم ہی اس وقت پاکستان کو مو جودہ کرائسز سے نجات دلا نے کی ضمانت ہے اب ہمارے تعلیمی نظام پر بھی حملے کیے جارہے ہیں اور ہمیں اقوام عالم میں بد نام کرنے کی مذموم سازشیں کی جارہی ہیں۔
جبکہ دوسری طرف بلوچوں کی یہ روایت ہے کہ وہ کسی عورت پر ہاتھ اٹھانا بے غیرتی سمجھتے ہیں تو پھر یہ مقامی لوگ نہیں تو پھر کون سے عناصر ہیں جو ملکی سالمیت اور بلوچوں کی تذلیل کرنے کی مذموم سازشیں کررہے ہیں یہ بلوچوں کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے یا پھر بلوچستان میں صوبائی حکومت انتظامیہ کو ناکام بنانے کا ایک بہا نہ۔