رات تقریباََ ساڑھے گیارہ بجے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک دیرینہ دوست عابد رضا کا پیغام موصول ہو جس میں انہوں نے وطن عزیز کے ہر دل عزیز شہر کراچی کے حالات پر دل کھول کر ماتم کیا جو کہ اُن کے ایک محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ آخر یہ ماتم کب تک جاری رہے گا؟ عابد رضا پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ایک جیالے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائی ہے مگر الیکشن جیتنے کے بعد قائم ہونے والی (ن) لیگ کی حکومت کی حالیہ بے حسی دیکھ کر ان کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ قارئین کرام! شاید ابھی تو کتنے ہی جیالوں کا دل ٹوٹے گا کیونکہ جن مقاصد کی تکمیل کیلئے انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تیسری مرتبہ حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا وہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا، نومنتخب وزیراعظم پاکستان جو کہ الیکشن سے قبل ہی کشکول توڑنے کا وعدہ کر چکے تھے آج ان ہی کے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلا دیا۔
جس پارٹی کی سیاسی مہم میں بجلی بحران ڈیڑھ سال کے اندر اندر ختم کرنے کے نعرے لگا کرتے تھے اب اس ہی پارٹی کے وزیر پانی و بجلی نے فرمایا ہے کہ لوڈ شیڈنگ آئندہ پانچ سالوں تک بھی نہیں ختم ہو سکتی۔ قارئین کرام ! پاکستان مسلم لیگ(ن) کے جیالوں اور محب وطن پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی رائے وہی ہے جو میرے عزیز دوست عابد رضا کی ہے کہ لگتا ہے یہ حکومت بھی گزشتہ حکومت کی طرح وعدوں کا لالی پاپ کھلاتی رہے گی۔ یوں تو نوزائیدہ حکومت کا ہنی مون کا دور ابھی ختم نہیں ہوا لیکن ملکی مسائل نو منتخب حکومت کو ہنی مون کی چھٹیاں گزارانے کی اجازت دیتے نظر نہیں آ رہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف عوام کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے اکثر پریشان دکھائی دینے لگے ہیں اور انہیں پریشان ہونا بھی چاہئے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس بار تو جیسے تیسے کر کے پاکستان مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آ ہی گئی ہے اور اب اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عوامی مسائل کا خاتمہ نہیں کیا اور اپنا روایتی انداز تبدیل نہیں کیا تو عوام کے پاس ایک آخری آپشن بھی موجود ہے۔
karachi killing
قارئین کرام! یوں تو تقریباََ سارے ملک کے حالات ہی خراب ہیں اور لاقانونیت کا راج ہر جگہ پر نظر آ رہا ہے مگر روشنیوں کے شہر شہر قائد کو ظالموں نے لاشوں کے شہر میں تبدیل کر دیا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ہم اسلام سے پہلے کے دور یعنی زمانہ جاہلیت میں داخل ہو گئے ہیں جہاں ہر جگہ قتل و غارت گری، لوٹ مار، عزتوں کا تقدس پامال کرنا اور قانون نامی کسی چیز کا موجود نہ ہونا نظر آتا ہے، ایک وقت تھا کہ کراچی پوری دنیا میں امن و امان کے حوالے سے مشہور تھا اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کراچی آیا کرتی تھی اور اب ایک وقت یہ ہے کہ کراچی کے رہائشی گھر سے نکلتے وقت کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں ان کی گھر واپسی ہو گی کہ نہیں؟ حالیہ قتل و غارت گری نے پھر سے پورے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہمارے ادارے کراچی کی صورتحال پر ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرانے میں اور دشمنان ملت و دشمنان اسلام کراچی میں لاشوں کی صفیں بچھانے میں مصروف ہیں۔
میرا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اعلیٰ عدیہ سے سوال ہے کہ وہ کون سی مجبوریاں ہیں جو کراچی کا امن و امان بحال نہیں ہونے دیتیں؟ کیا کراچی میں انسان نہیں بستے؟ کراچی کو دشمنوں سے پاک کرنے کیلئے تاریخ کو کیوں نہیں دہرایا جاتا؟ کراچی میں لاشوں پر چڑھ کر رقص کرنے والوں کے گریباں میں ہاتھ ڈال کر انہیں تین تلوار کے چوک پر سولی پر کیوں نہیں لٹکا دیا جاتا؟ جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح دہشت ختم کرنے کیلئے تھوڑی دہشت حکومت کی سرپرستی میں پھیلانی پڑے گی اور وہ دہشت حکومت کی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہو گی, کراچی و پاکستان کے دشمنوں اور خفیہ طاقتوں کو ختم کرنے کیلئے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانا ہونگے, اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کراچی کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہی تو ملک کیساتھ ساتھ خود حکومت بھی شدید ترین مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ عوام الناس, میڈیا اور عدلیہ کا دبائو بڑھتا چلا جائے گا۔
قارئین کرام! اگر کراچی کے حالات اسی طرح رہے تو دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا, کراچی کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کیلئے ضروری ہے کہ خفیہ طاقتوں, ملک دشمن عناصر, شدت پسندوں کا جڑ سے خاتمہ کر دیا جائے اور بد امنی میں ملوث افراد کو ایسی سزا دی جائے کہ وہ جرم کرنے والوں کیلئے نشان عبرت بن جائیں, کراچی کے حالات کو لگام دینے کیلئے قانون کی حکمرانی انتہائی ضروری ہے اور قانون بھی وہ جس سے کوئی بالاتر نہ ہو تبھی لاشوں کے اس شہر کو دوبارہ قائد کا شہر اور روشنیوں کا شہر بنایا جا سکے گا۔