پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور الیکشن 2013. کے بعد حکومت سازی کا عمل مکمل ہوا ہے۔ ملک بھر کے عوام کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بہت سی امیدیں اور توقعات ہیں۔ دہشت گردی۔ انرجی کرائسز اور معاشی بد حالی اس دور کے بڑے چیلنجز ہیں۔ عوام نے ان مسائل پر قابو پانے اور ملک کو بہتر مستقل دینے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ دیا ہے۔
اب سیاسی جماعتوں کو وقت ملنا چاہیئے تاکہ ملک کو اس سنگین بحران سے نکال سکیں۔ ملک میں جمہوری نظام کا تسلسل خوش آئند ہے اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرنا چاہیئے اور برداشت، سیاسی روا داری کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کو فروغ دینا چاہیئے کیونکہ کوئی ایک سیاسی جماعت ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
پاکستان میں اداروں کو مضبوط کرنے کے لیئے مؤثر اور لانگ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں کی تبدیلی اور سیاسی جماعتوں کے حکومت میں آنے، جانے سے ریاستی ترقی۔ خوشحالی۔ استحکام اور خارجہ پالیسی میں تسلسل میں کمی یا تبدیلی نہیں آنی چاہیئے۔
ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے تو ریاست مضبوط ہو گی اور ریاست مضبوط ہو گی تو متوقع و غیر متوقع چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے گا۔ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے کے لیے قوم کو خود انحصاری، محنت اور ایمانداری کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔ قوم کو ڈسپلین قائم کرنا ہو گا۔ کیونکہ ڈسپلین ہی قوموں کو عروج و ترقی عطا کرتا ہے۔ “پاکستان کی ترقی، پاکستانیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
Pakistan People
ملک کی آبادی کی اکثریت نو جوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمیں اپنے انسانی وسائل کو ترقی دے کر قوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان میں لٹریسی ریٹ کو تیز رفتار ترقی دے کر ملکی آبادی کی 51% خواتین کو تعلیم یافتہ اور با اختیار بنانا ہوگا۔ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سائبرٹی بنانا ہوگا۔
ملک میں تعلیم و روزگار کو سو فی صد یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ وہاڑی کی کپاس کی پیداوار پورے صوبہ سندھ سے زیادہ رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہاڑی کو کاٹن کنگ کہا جاتا ہے۔ وہاڑی میں ٹیکس فری ٹیکسٹائیل انڈسٹریل زون بنایا جانا چاہیئے ۔ ساہیوال تا ملتان براستہ وہاڑی موٹر وے قائم کیا جائے۔
سینٹرل ایشیاء کے ممالک کو تجارتی راستہ فراہم کر کے سالانہ اربوں ڈالر کمایا جا سکتا ہے۔ ملکی ترقی خوشحالی اور معاشی بحالی کے لیے سیاسی قیادت کو جرأت مندانہ فیصلہ کرنا ہوگا اور تمام سیاسی اکابرین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔
سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ کیونکہ تنہا کوئی سیاسی جماعت ملک کو موجودہ بحرانوں سے نہیں نکال سکتی۔ انرجی کرائسسز اور فنانشنل کرائسسز پر Over – night قابو نہیں پایا جا سکتا ۔ اس کے لیئے سنجیدہ اور لانگ ٹرم اقدامات کرنا ہو گئے۔