مزدوروں کی اجرت کی ادائیگی کون کرئے گا

Budget

Budget

بجٹ میں صنعتی مزدور کی کم از کم تنخواہ 9 سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کا فائدہ صرف 5 سے 10 فیصد مزدوروں کو ہوگا کیونکہ صنعتوں کے 90 فیصد مزدور سرکاری اداروں کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں۔ حکومت صرف اعلان کرتی ہے عمل نہیں ہوتا۔ تنخواہ میں ایک ہزار روپے اضافے سے بھی ان کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو یومیہ اجرت یا پھر کپڑے کی تیاری کے حساب سے رقم ملتی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا گیس کی بندش یا پھر فیکٹری کسی اور وجہ سے بند ہو جائے تو مزدور کی تنخواہ ہر صورت کم ہو جاتی ہے۔

یوں مقرر شدہ تنخواہ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہ ہونے سے بھی مزدوروں کی اکثریت سرکاری اقدامات سے مستفید نہیں ہو سکتی۔ رجسٹرڈ مزدوروں کی تنخواہ کم یا زیادہ کرنے کے کسی فیصلے پر بھی آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور تنخواہ میں اضافے کے اعلان کے باوجود مایوس ہیں۔ حکومتی اعلان کے باوجود مالکان ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ ان کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے۔ مزدوروں کی بڑی تعداد تنخواہوں میں اضافے کو مہنگائی کے مقابلے میں انتہائی ناکافی قرار دے رہی ہے۔

مزدوروں کی اجرت ، ادائیگی اور صنعتی ماحول چیک کرنے کے لیے سوشل سکیورٹی، اولڈ ایج بینیفیٹ اور لیبر ڈیپارٹمنٹ جیسے محکمے تو قائم ہیں لیکن ان کے افسران کو فیکٹریوں کے معائنے کی اجازت نہیں۔موجودہ دورمیں مزدور کوناصرف بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کا سامنا ہے بلکہ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند اور لاکھوں محنت کش بے روزگار ہو گئے ہیں۔ مزدور رہنماوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کم از کم تنخواہ 9 سے بڑھا کر 10 ہزار روپے مقرر تو کی گئی ہے لیکن اس پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔

نجی شعبے میں محنت کش اب بھی تین چار ہزار روپے تک ماہانہ پرملازمت کرنے پرمجبور ہیں جبکہ صحت یاسوشل سکیورٹی تو انھیں بالکل میسر نہیں۔ دیہی گھرانوں کا مقداری، معاشی حوالوں سے اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات نظر آتی ہے کہ ایک عام گھرانے میں 9.87 افراد ہوتے ہیں، جن میں دو مرد، دو خواتین اور پانچ بچے شامل ہوتے ہیں۔ عام حالات میں دو بوڑھے افراد بھی ہوتے ہیں، کم و بیش کنبہ کے آدھے افراد کھیتوں میں کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ عورتوں اور مردوں کی تعلیمی حیثیت میں بھی بہت تفاوت ہوتا ہے۔

Education

Education

70 فیصد مرد ناخواندہ ہیں جبکہ باقی 30فیصد نے بھی واجبی رسمی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ دوسری طرف 13 فیصد خواتین ایسی ہوتی ہیں جنہوں نے ایسی تعلیم(واجبی رسمی ) حاصل کی ہوتی ہے اور 87 فیصد خواتین ناخواندہ ہوتی ہیں۔ 80 فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس اوسط 6.7 ایکڑ زمین ہے۔ تھوڑی زمین کی وجہ سے ایسی زمین پٹہ پر لینے یا دینے کی اوسط بھی 4.6 ایکڑ ہے۔ اوسطاً 2.0 مرد فارم پر کل وقتی کام کرتے ہیں،جبکہ 2.2 عورتیں کل وقتی کھیت پر سرگرمیاں سر انجام دیتی ہیں۔ غیر کھیتی سرگرمیوں میں اوسطاً 1.4 فیصد مرد جبکہ ایک فیصد عورتیں کام کرتی ہیں۔

غیر کھیتی سرگرمیوں سے اوسطاً ایک مرد کسان ماہانہ 3700 روپے جبکہ عورت کسان 2400 روپے تک کماتی ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں بچے اور بچیاں سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ کچرے کے بڑے بڑے ڈھیروں پر معصوم بچے اور بچیاں رزق ڈھونڈتی نظر آتی ہیں۔ت علیم یافتہ افراد کے بنگلوں اور فلیٹس میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں اور ہزاروں سماجی برائیوں کا ان کو سامنا ہے لیکن ان لوگوں کا ضمیر سویا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ملکی سطح پر قوانین تو موجود ہیں لیکن ان کا اطلاق ہوتا نظر نہیں آتا۔

پورے ملک میں کام کرنے والی فیکٹریوں، ہوٹلوں، ورکشاپس، دکانوں اور بڑے بڑے اخباروں اور ٹی وی چینلز میں خون اور پسینہ بہانے والوں کو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی، انکی زندگی اور حرمت کی حفاظت کے معقول انتظامات نہیں کئے جاتے اور ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ جنسی حراسیت کی سدباب کے لئے البتہ ایک قانون منطور کر لیا گیا ہے جس سے شائد مختلف اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو تھوڑی بہت سہولت مل سکتی ہے۔ لیکن اس قانون کو موثر نہیں بنایا جاسکتا اگر خواتین اس سے آگاہ نہیں ہونگی یا پھر اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہمت نہیں باندھیں گی۔

Workers

Workers

تاریخ گواہ ہے کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں روس کے مزدوروں کی پست حالت کی اصل وجہ سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم تھی۔ اور یہی وہ بیماری ہے جس کو دور کرنے کے لیے مارکس نے اجتماعی ملکیت کا نظام پیش کیا تھا، لیکن روس ایک طویل مدت گزر جانے کے باوجود اس بیماری کا خاتمہ نہیں کر سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ کمیونسٹ روس کا مزدور اسی طرح استحصال کا شکار تھا جس طرح وہ بورثوا سوسائٹی میں سرمایہ داروں کے استحصال کا عذاب جھیل چکا تھا۔روس کے محنت کشوں کی جاں فشانی سے جو خطیر سرمایہ حاصل ہوتا تھا اس کے ایک بڑے حصے کو اصولاً مزدوروں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے تھا۔

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سرمائے کا نصف حصہ قومی خزانے میں جو کمیونسٹ سماج کا بورثوا طبقہ تھا، جمع ہو جاتا تھا اور نصف حصے سے حکومت کے ارباب انتظام، افسروں، کارکنوں اور منیجروں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں اور جو باقی بچ رہتا تھا اس سے مزدوروں کو اجرتیں دی جاتی تھیں اور سوشل انشورنس کے نام سے ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا تھا۔سرمایے کی اس تقسیم کو منصفانہ کون کہہ سکتا ہے۔ جو ہاتھ دولت پیدا کرے اس کو کم تنخواہ ملے اور جو لوگ محنت نہ کریں ان کو زیادہ تنخواہیں دی جائیں۔ کیا یہ بات خود مارکسزم کے اصولوں کے خلاف نہیں تھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ قومی سرمائے کا نصف حصہ قومی خزانے میں اس لیے جمع کر دیا جاتا تھا۔

تاکہ اس رقم سے صنعت و حرفت اور تعلیم کو فروغ دیا جائے اور غیر ملکی سامراج کے خلاف قومی دفاع کو مضبوط بنایا جائے، لیکن یہ سب کام نظام سرمایہ داری میں بورثوا طبقہ بھی انجام دیتا تھا۔ پھر وہ مطعون کیوں تھا، کیا وہ فاضل سرمایے کو محض عیش و عشرت میں اڑا دیتا تھا؟ بورثوا طبقہ پر مارکسزم کے ہم نواؤں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ مزدوروں کو ان کی محنت کا قلیل حصہ بطور اجرت دے کر باقی سرمائے کو یا مارکس کے الفاظ میں قدر زائد (Surplus Value) کو خود ہضم کر جاتا تھا اور یہ طرز عمل ان کے نزدیک مزدوروں کے استحصال کے مترادف تھا۔ بلا شبہ یہ ایک بدترین استحصال تھا۔

لیکن یہی استحصال تو کمیونسٹ معاشرے میں بھی جاری رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ استحصال کرنے والا طبقہ اب بورثوا کے بجاے خود کمیونسٹ پارٹی بن گئی۔ سرمایہ داری (Capitalism) اور اجتماعی ملکیت کے نظاموں کی خرابیاں قارئین نے دیکھ لیں اور معلوم ہو گیا کہ ان نظاموں نے دنیائے انسانیت کو دکھ درد اور ظلم و استحصال کے سوا اور کچھ نہیں دیا ہے۔ آج دنیا اس بات کی شدت سے آرزو مند ہے کہ کوئی ایسا نظام معیشت ہو جس میں مذکورہ دونوں نظاموں کی خرابیاں نہ ہوں۔ اور یہ اسلام کے نظام معیشت کے سوا کوئی دوسرا نظام نہیں ہو سکتا ہے۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تخریر : غلام مرتضیٰ باجوہ