ہمارے ملک عزیز میں کالے یرقان (ہیپاٹائیٹس ) مرض کا وائرس خوفناک حد عبور کر چکا ہے ۔ فیصل آباد کے لیور سنٹر میں لکھے ہوئے نوٹس کوپڑھ کرخوف کی ایک لہر ہماری ریڑھ کی ہڈی میں اتر گئی کہ اس مرض کا تناسب پچیس فیصد ہے۔ یعنی فیصل آباد کا ہر چوتھا شہری ہیپاٹائٹس کا مریض ہے۔ واللہ المستعان۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو ایسے جینے کے ہاتھوں مرچلے
ہمارے مستعد خادم اعلی پنجاب نے ڈینگی وائرس کاجس طرح جنگی بنیادوں پر پیچھا کیا۔ اور اب خسرہ کی وباء کے خلاف ان کی ترکتازیاں عروج پر ہیں۔ اسی طرح ہیپاٹائٹس وائرس کے خلاف بھی محاذ کھولنا چاہیئے۔اربابِ حکومت، میڈیکل کالجوں اور میڈیسن فرموں میں بیٹھے ہوئے سائسندان اس طرف بھی توجہ مبذول فرمائیں۔
سول ہسپتال فیصل آباد شہر کا ایک بڑا اور قدیمی سرکاری شفاخانہ ہے۔ چند سال پہلے کالا یرقان نامی مرض کے عفریت نے جب فیصل آباد کے مکینوں کو اپنے خونی پنجوں میں لپیٹنا شروع کیا تو شہر کے چند مخیر حضرات نے سول ہسپتال کے ایک ونگ کو لیور سنٹرکے نام سے ہیپاٹائیٹس والوں کیلئے مختص کردیا ہے۔ جس میں صرف پچاس بسترہیں جو بڑھتی ہوئی مانگ کے مقابلے نہایت ہی ناکافی تناسب ہے۔
سول ہسپتال ہمارے گھرسے زیادہ دور نہیں ہے۔ ہمیں بچپن میں بیسیوں مرتبہ کسی نہ کسی عزیز کی تیمارداری کیلئے یہاں آنا پڑتارہا۔باہروالی ٹھنڈی سڑک پرسفیدے کے لمبے لمبے درخت اورگلاب، موتیا، رات کی رانی، دن کا راجا، مولسری وسوسن اوریاسمین کے لہلہاتے ہوئے پھولوں کی خوشبو سے مشام جان معطر ہوتی اور چہارسو بکھری ہوئی نرم نرم روئی کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے جب وہاں سے گزرنا ہوتا تو عجیب جان افزا ماحول بن جاتا تھا۔ آج وہ تیس چالیس سال پرانی یادیں انگڑائیاں لیتی ہیں۔ تو دل میں کچھ کچھ ہونے لگتا ہے۔ پھر ہم اس ماحول اور ان جذبات کو تھپکی دے کرسلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیور سنٹر کے باہر ایک کیمپ ایدھی سنٹر کا بھی لگاہوا تھا ۔ دل میں بڑی عقیدت تھی اس درویش آدمی کیلئے ۔آتے جاتے کچھ رقم عطیہ کرنے سے دل کوبہت خوشی ہوتی کہ اس کارخیرمیں ہمارا بھی تھوڑا سا حصہ ڈل جائے ۔
Allied Hospital
سول ہسپتال کے علاوہ الائیڈز ہسپتال بھی فیصل آباد کاسرکاری شفاخانہ ہے۔ جہاں مریضوں کے بعض اہم ٹسٹ فری کیے جانے کے انتظامات تو ہیں کیونکہ ان کے پاس جدید مشینری، چاق وچوبند عملہ، اعلی پائے کے قابل ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہوتی ہے جو پرائیویٹ ہسپتالوں کے خواب وخیال میں بھی نہیں ہوتی۔ بلاشبہ حکومت اس مد میں لاکھوں خرچ کرتی ہے ۔لیکن عوام تک پہنچتے پہنچتے مونگ پھلی کے چند دانے ہی رہ جاتے ہیں۔ کرپشن، اقربا پروری، ہڈحرامی اوربدنیتی کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ ہر قیمتی دوائی میڈیکل سٹورز پر پہنچ جاتی ہے اور غریب آدمی انہی مخصوص سٹوروں کا طواف کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔
مریضوں کووہاں کے ملازم ڈاکٹرز اور حکیم صاحبان اپنے اپنے کلینکوں اور شہر میں موجود دواخانوں کی طرف اس تاکید کے ساتھ بھیج دیتے ہیںکہ یہ دوائی صرف اسی سٹور یا دواخانہ سے مل سکے گی، کسی اور دوکان سے خریدی ہوئی دوائی انہیں ہرگز برداشت نہیں ہوتی۔ بے ایمانی بددیانتی کے اس غلیظ جوہڑ میں انسانیت کے چند پھول بھی تیرتے، خوشبو پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ جن کی روح افزاء مہک سے ایک جہان معطر بھی ہوتا ہے اور ملک کا سسٹم بھی چلتا جاتا ہے۔ الائیدز ہسپتال فیصل آبادکے باہر بھی مریضوں کے ورثاء کیلئے دو وقت کا کھانا بھی مخیرحضرات کی طرف سے فری فراہم کیا جاتا ہے۔ جبکہ کئی ادارے ایمبولینس فری یا معمولی چارجز پر فراہم کر دیتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں۔
گورنمنٹ کوئی بھی ہو اقرباء پروری، سفارش اورجان پہچان کاسکہ ہمیشہ ہی چلتا ہے۔ جناب پرویز الٰہی اورجناب شہباز شریف کے دور حکومت میں بعض دیگر اداروں کی طرح ہسپتالوں میں کافی بہتری آئی ہے لیکن یہ بہرحال بہت کم ہے۔ سول ہسپتال فیصل آباد میں پچاس بستروں پرمشتمل لیور سنٹر چند مخیر حضرات کا کاوش کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہاں کسی مریض کو داخل ہونے کیلئے سرکاری ہسپتال کے ملازم ڈاکٹروں کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں باقاعدہ رجسٹرڈ مریض بننا پڑتا ہے۔ اور پھر انہی کے توسط سے یہ مریض ایمرجینسی میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اگر سارے مالدار، ملز مالکان، وزیر و مشیر حضرات محض اپنی زکات ہی اس نیک کام کیلئے خرچ کر کے اس قسم کے یونٹوں کو وسعت دیں اور ہر مریض کیلئے داخلہ عام کردیں تو دیں تو کوئی مریض علاج کے ہاتھوں جان سے نہ ہارے۔
مقامی ہسپتالوں میں نئے وارڈوں کا قیام
Needy
ہم نے اپنے عوامی لیکچروں، خطبات جمعہ اور عوامی اجتماعات میں بارہا اس طرف توجہ دلائی کہ نیکی صرف نماز پڑھنے اور حج وعمرہ کرنے کانام نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں اللہ کی مخلوق پر اللہ کا دیا ہوا مال خرچ کرنے کا نام ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ١٧٧میں حق تعالی نے واضح فرمادیا۔ یتیموں ، مسکینوں، بیواؤں اور محتاجوں کی سرپرستی بہت بڑا کارخیر ہے۔ دل کی نرمی کا ذریعہ ہے۔ اسلام سخی اور غریب پرور دین ہے۔ جس میں کسی گناہ کا کفارہ غلاموں کی آزادی، کچھ مسکینوں کو کھانا کھلانا اور انہیں لباس مہیا کرنا ہے ۔
نماز عید سے پہلے روزوں کا صدقہ غریب و مسکین کی دہلیز پر پہنچانا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں بڑے بڑے کرپٹ اور ظالم و درندے ہیں وہاں بڑے بڑے سخی اور غریب پرور لوگ بھی موجود ہیں۔ بارہا عرض کیا کہ ہرسال حج و عمرے پر کروڑوں خرچ کرتے ہو اس کی بجائے اپنے اپنے علاقے کے سول ہسپتالوں میں زچہ بچہ وارڈ بنوا دو، ہیپاٹائیٹس کے مریضوں کیلئے ایک ایک وارڈ مختص کروا دو۔ تواس سے دوفائدے حاصل ہوسکتے ہیں ایک تو سرکاری ہسپتالوں کی صورت مستقل طور پر معقول بن جائے گی کیونکہ پرائیویٹ ہسپتال اپنے بانی کی زندگی تک چلتے ہیں جبکہ سرکاری ہسپتال ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔
ہر شخص اس طرح کا نیک کام کرنے کا سوچتا ہے کہ میں فلاح انسانیت کیلئے کوئی ہسپتال بنادوں۔ اور ایسا ہر ایک کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ یہ آسان طریقہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں اس قسم کے یونٹ بنادیے جائیں۔ دوسرا اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی جو سب سے بڑا فائدہ ہے۔ سول ہسپتال تاند لیا نوالہ میں داخل ایک آٹھ سالہ بچی کو دیکھ کر بڑا ترس آیا جس کا باپ دوماہ پہلے کوئٹہ میں دہشتگردی کا نشانہ بن گیا تھا۔ اور اس بچی کی ماں کے پاس دوائی کیلئے پیسے تک نہ تھے۔
ایسے لوگوں کی مالی مدد کرنے سے اللہ تعالیٰ زیادہ خوش ہو گا کیونکہ حج تو صرف ایک بار فرض ہے فری ایمبولینس سروس پر خرچ کرنابھی بڑی عبادت کا کام ہے۔ مریضوں کے ورثاء کے پاس گاڑی کے تیل کے پیسے نہ ہونے کے باعث کئی مریض وہیں دم توڑ دیتے ہیں۔اس کا تجربہ بھی ہمیں حال ہی میں ہوا جب ایک ایمبولینس اس مقصد کیلئے فراہم کی گئی۔ یاد رہے کہ ایک انسان کی حیات نو دینا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
Dispensary
٭ ہر گلی، پھر محلے کی سطح پر فری ڈسپنسری بنائی جائے۔ جس کے اخراجات مقامی طور پر مخیر حضرات برداشت کریں۔تاکہ چھوٹے موٹے کیس وہیں نمٹادیے جائیں۔ہم نے دو دوروپے کی گولی کیلئے کئی بوڑھے بزرگوں کو میڈیکل سٹوروں پر دھکے کھاتے دیکھا ہے۔ میڈیکل سٹور والے ایک شیلف ان لوگوں کیلئے مختص کردیں جو دوائیاں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اور جو مالدار لوگ دوائیاں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اس شیلف میں چند روپے رکھ دیں تاکہ غریب دوائی خرید سکے اور اس کی عزت وخودداری بھی مجروح نہ ہو۔ اسی طرح بڑے چھوٹے جنرل سٹور عام سبزی وگوشت کی دوکانیں بھی اس طریقے کو اپنائیں۔ شربت بیچنے والا ایک آدھ گلاس فری میں کسی مسکین کو محتاج کو پلا کر اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ یوں ہمارا معاشرہ بڑی حد تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے حیف ہے اگر اسلامی جمہوری ملک میں کوئی شخص کسمپرسی سے مر جائے.
کارخیرکے جذبات بیدار کیجئے
٭اس کے علاوہ کارخیرکے کیلئے اچھے جذبات کو بھی بیدار کیا جائے کہ ان نعمتوں پر دوسروں کا بھی حق ہے کیونکہ یہ سب کچھ محض فضل ربانی کے کارن ہیں۔ شدید گرمی کی سخت دوپہر میں محلے میں کسی چھابڑی فروش کی آواز آتی ہے۔ اسے ایک گلاس ٹھنڈا پان، چائے کاایک کپ اور ایک روٹی دینا کوئی بڑا مشکل کام نہیں ہے۔
٭ مالدار لوگ جن کی زکات کافی بنتی ہے وہ اس زکات سے اپنے رشتہ داروں کی مدد کریں۔ پھر درجہ بدرجہ دوسروں کی طرف توجہ دیں۔
٭ ڈاکٹر ، وکلائ، صحافی ، ملزاونرزکارخانے داراپنی اپنی کمائی کا زکات کے علاوہ بھی انسانیت کے نام پرچند فیصدحصہ اس کام کیلئے وقف کرنے کی عادت ڈالیں تو بے پناہ دلی خوشی نصیب ہو گی۔ اور رزق میں برکت ہو گی۔
٭ محلے کے ڈاکٹر حضرات اپنے اس خدادا فن کی زکات یوں نکالیں کہ دس مریضوں میں سے ایک یا دو مریضوں کو بغیر فیس کے دیکھ لیں اگر ہو سکے تو مریض کو اپنے پاس سے دوائی بھی دیں۔
علماء و خطباء اور ائمہ کرام کا فرض علماء وخطباء اور ائمہ کرام کابھی فرض ہے کہ وہ اپنی تقریروں ، وعظوں ، دروس اور مجلسوں میں لوگوں کی توجہ اس طرف دلائیں کہ عبادت کا سب سے بہتردرجہ خدمت انسانیت کا راستہ ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر١٧٧ ، سورہ الماعون ، سورہ المدثرآیات٤٠تا٤٤ ، سورہ البلدآیت١١تا١٦ سورہ المعارج کی آیات٢٣،٢٥ ۔وغیرہ کی تشریح کریں کہ یہ رزق جو تمہیں مل رہا ہے یہ تمہارے زور بازو کی قوت سے نہیں مل رہا
اللہ کے کرم سے مل رہا ہے(سورہ الزمر٤٩) اس تمہارے مال میں غریبوں کا حصہ ہے اور یہ ان کا حق ہے ۔ جس کا حق ہو اسے لوٹان اکوئی احسان کرنا نہیں ہوتا۔ قارون نے کہا تھا یہ سارا مال میری قوت بازو اور ذہنی صلاحیتیوں کی بدولت ہے ۔ اور پھر وہ سارا مال اس کیلئے وبال جان بن گیا(سورہ العنکبوت٢٦،٢٨) یہ مال کی قلت یا بہتات دراصل ایک امتحان ہوتاہے جس میں کامیاب ہونا بہت ضروری ہے۔(آل عمران١٩٢،سورہ التوبہ آیات ٥٥،٨٥ )
دَرْدِ دِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ عبادت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ اس ضمن میں اپنا اپنا کردار ادا کرے ۔تاکہ ہمارا معاشرہ فلاحی معاشرہ بن جائے ہربات کیلئے حکومت کی طرف دیکھنا اپنے فرائض سے جی چرانے کے مترادف ہے ۔آخرمیں ایک بار ہم پھراپنے حکمرانواں اور معاشرے کے اہل خیر کی توجہ ہیپا ٹائٹس ودیگر جیسے جان لیوا
ا مراض کے تدارک کی طرف مبذول کراتے ہیں کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔ اور ایک اہم پہلو کہ بیماریوں سے بچنے کیلئے وہ سب دعائیں روزانہ پڑھنی چاہیئں جو ہمارے پیارے نبی ۖ نے ہمیں سکھائی ہیں اور اپنے طرز زندگی کو سادگی اور سنت کے سانچے میں ڈھالیں۔ اس قسم کی تمام دعائیں کتب احادیث کے باب الدعامیں موجود ہیں اورہر فرد کی پہنچ میں ہیں۔ جس گھڑی ہم تیرے آستان سے گئے ہم نے جانا کہ دو جہان سے گئے۔