گزشتہ پیر کو پی ایم ایل (ن) کے سربراہ اور ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ملک کو دہشت گردی، توانائی بحران سمیت دیگر مسائل کو پسِ پست ڈال کر سابق صدر (ر)جنرل پرویز مشرف پر غداری کامقدمہ چلانے کا اعلان کر کے ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے، اور قوم اپنے مسائل کو بھول کر یہ سوال کرتی پھر رہی ہے کہ اب آئندہ ملک میں کیا ہونے والاہے ایک ایسے وقت میں وزیراعظم کا یہ اعلان یقینا اپنے اندر بہت سارے پوشیدہ نکات ضرور رکھتا ہو گا جس کے بارے میں وزیر اعظم بہتر جانتے ہوں گے مگر شاید مسائل کی دلدل میں دھنسے عوام کے نزدیک ابھی اِس مقدمے کو چلانے کے اعلان کا یہ درست وقت نہیں تھا۔
بہرحال ملک کی اِس موجودہ صورت حال میں مجھے دودانا کے دو اقوال یاد آرہے ہیں ایک قول گو ئٹے کا ہے تو دوسرا سٹیونسن کا ہے، گوئٹے کا کہنا ہے کہ سیاست اِنسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں اِنسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہوتی ہیں تو دوسری طرف سٹیونسن کا سیاست سے متعلق یہ خیال ہے کہ لگتاہے کہ سیاست کو ایک ایسا پیشہ بنا دیا گیا ہے کہ جس میں کسی قابلیت و مہارت کی ضرروت نہیں یہاں میں نے اپنے اپنے زمانوں کے دوایسے دانشوروں کے اقوال نقل کر دیئے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانوں کے لحاظ سے ڈرامہ سیاست اور اِس کے کرداروں کا مطالعہ کیا۔
اور پھر جس نتیجے پر پہنچے اِسے مختصرا اقوال میں بیان کردیا جو آج بھی میدانِ سیاست میں زور آزمائی کرنے والوں کے لئے صفحہ قرطاس پر موجود ہیں۔ یعنی لفظ سیاست اپنے اندر کتنی وسعت رکھتاہے، اِسے جاننا اہلِ سیاست کے لئے لازم ہونا چاہئے کہ یہ لفظِ سیاست اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے سمندر کی گہرائی سے بھی کہیں زیادہ گہراہے، اور اِس کا ایک ایک نقطہ بنی نوع اِنسان کے لئے فلاح کے دریچے کھولتا ہے مگر آج افسوس سے یہ کہنا پڑتاہے کہ لگتاہے ہمارے سیاستدان لفظ سیاست کا ایک نقطہ بھی نہیں جانتے ہیں۔
اور یہی وہ ہماراسب سے بڑاالمیہ ہے، جو ہمارے لئے المیہ پہ المیہ جنم دے رہاہے، اپنی نااہلیت کی بنیاد پر سیاستدانوں نے قوم کی تقدیر توبنانے کا ٹھیکہ اپنے ہاتھ میں لے رکھاہے، مگر آج یہ قوم کی تقدیر بنانے کے بجائے، اپنے ہر الٹے سیدھے اقدامات اور احکامات سے قوم کا بیڑا غرق کرنے میں لگے پڑے ہیں۔ اگرچہ ایسے میں قوم باشعور ہوجائے ،اور صرف ایک بار متحد و منظم ہوکر صرف ایک بار پاکستانی ہونے کے ناطے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر( اپنے اِن پہروپئے اور جوکر نما)سیاستدانوں کا احتساب کرنے کے لئے میدانوں اور سڑکوں پر نکل جائے تو پھر سیاستدانوں کے لئے زمین تنگ ہو جائے گی۔
Politics
مگر افسوس ہے کہ اِب ہماری قوم میں نہ توا تنی سکت ہی باقی رہ گی ہے اور نہ ہی اِس میں اتناحوصلہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنے سیاستدانوں کا احتساب کرنے کے لئے باہر نکلے اور سیاستدانوں اور حکمرانوں سے حساب برابر کرے۔ اِن حالات میں کہ جب میرادیس پاکستان دہشت گردی، توانائی بحران اور زمین بوس ہوتی معیشت کے مسائل سے دوچار ہے اور اپنے ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھنے کی پوری کوشش کر رہا ہے اِیسے میں سیاستدانوں، حکمرانوں، بیور کریٹس اور عوا م کو ہر طرح کے مفاہمتی اور مصالحتی عمل اور اپنی ذات کے خاطر اغیار کی لیپا پوتی کے اس خول سے ضرور باہر نکلنا ہو گاجو ہم نے 65 سالوں خود پر چڑھا رکھا ہے۔
اپنے مسائل کے حل کے خاطر خالصتا حب الوطنی کے جذبے کے تحت وہ راہ اپنانی ہوگی، جس کے انکار سے ہم اپنی خود مختاری، سالمیت اور استحکام اور وہ سب کچھ تباہ کرچکے ہیں، جو دنیاکے آزاد اور خود مختار ممالک کو حاصل ہوتا ہے۔ آج ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور توانائی کا بے لگام بحران اور دگرگوں ہوتی ملکی معیشت جان کاجنجال بنے ہوئے ہیں ،اِن جیسے مسائل کے حل کی جانب فوری توجہ دی جانی چاہئے تھی، مگر موجودہ حکومت جِسے اپنا اقتدار سنبھالے چند ہی روز ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں اِس حکومت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام ترجیحی مسائل کو بالائے طاق رکھ دیا اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریرمیں سابق صدر(ر)جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے 12 اکتوبر 1992 کو جمہوریت پر شب خون مارا گیا، اور دوسرایہ کہ مشرف نے 3 نومبر 2007 کو بھی غیر آئینی اقدام کیا جس میں نہ صرف عدلیہ کے ججوں کو غیر آئینی حکم کے ذریعے کام کرنے سے روک دیا گیا بلکہ میڈیا کو بھی جکڑا گیا۔
مشرف کو کسی بھی صورت میں استثنی کے لئے دباو قبول نہیں کیا تاہم اِس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے بلا جھجک کہا کہ اب پرویز مشرف کو اپنے آئین شکن اقدامات کا جواب دینا ہو گا اور پھر اِس کے بعد کابینہ نے بھی وزیر اعظم کے پالیسی تقریرو بیان کے مسودے کی روشنی میں سابق (ر) جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی اور پھر یوں ملک بھر میں مشرف حامیوں اور مخالفین کے درمیان بحث ومباحثوں کا ایک نہ رکنے والا جو سلسلہ شروع ہو چکاہے، اِس سے قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو چکی ہے۔
Musharraf
آج پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے پالیسی اعلان کے بعد ملک میں جو سیاسی کِل کِل شروع ہوچکی ہے، اِس نے ہر سطح کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبوری کردیا ہے کہ اب آئندہ ملک میں کیا ہونے والا ہی وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا پلک جھپکتے ہی نہیں کرلیا ہو گا یقینا اِس کے لئے اِس نے اپنا ہوم ورک بھی مکمل کیا ہو گا اور ملک کی اپوزیشن سمیت تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی اعتماد میں ضرور لیا ہو گا تب اِس نے آئین شکن سابق صدر(ر)جنرل پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔
اگرچہ اِن دنوں یہ کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے، قوم کو امید رکھنی چاہئے کہ اِس حوالے سے جو بھی فیصلہ سامنے آئے گا، وہ ملکی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہو گا۔ یہ شائد پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی ایسے سابق صدرجو (ر)جنرل بھی ہے اِس پر آئین شکن کی بنیاد پر غداری کا مقدمہ چلائے جانے کا اعلان کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے، اگر کسی اندورنی یا بیرونی دباو میں آئے بغیر موجودہ حکومت اور وزیر اعظم میاں نواز شریف سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف پر آئین کے مطابق غداری کا مقدمہ چلانے اور اِنہیںسزادلانے میں کا میاب ہو جاتے ہیں۔
تو یقینایہ ملک کی تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ ہوگاجس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہئے مگر کیا ہی اچھا ہو تاکہ گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد اقتدار کی مسند پر قدم رکھنے والی جماعت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پہلے ملک کو دہشت گردی، توانائی بحرانوں اور دیگر مسائل کے حل اور نانگا پربت کے المناک واقعہ میں ملوث ملک دشمن عناصر کا پتہ لگانے کی جانب توجہ دیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔
ابھی مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان اتنااہم نہیں تھاکہ آج قوم کے نزدیک دہشت گردی، توانا کا بحران اور اِن جیسے دوسرے مسائل کا حل ضروری تھا، بہرحال اب قوم اِس بات کی ضرور منتظر ہے کہ آئندہ کیا ہوگا یاپھر ماضی کی طرح کسی بڑے دباو کی وجہ سے وزیر اعظم کایہ اعلان بھی ٹائں ٹائں فش ہوجائے گا۔