گزشتہ روز جب یہ خبر آئی کہ فلاح انسانیت کے علمبردار عبدالستار ایدھی شدید بیمار ہو گئے یہ اطلاع عام ہوتے ہی پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایدھی کے چاہنے والوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور انکے لئے دعاوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انسانیت کے اس خدمتگار کے لئے لوگوں کی دعائیں رنگ لائیں ایدھی صاحب روبصحت ہیں تاہم ڈاکٹروں نے انکے گردے ناکارہ قرار دے دئیے ہیں انہیں ہر ہفتے ڈائیلاسسز کے عمل سے گزرنا پڑے گا ضرورت پڑنے پر ڈاکٹر ا نکے گردے تبدیل کر دیں گے۔ مولانا ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بنتوا میں پیدا ہوا۔
آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھٹوے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔
چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی تھی۔عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کے صدر ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔
دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسیسے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوا۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادات سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔
آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگواا اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوا باقی پاکستان نے بھی۔
Edhi Foundation
امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے سکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔ 1996ء میں انکی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔ 1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔
ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انہوں نے چھٹی نہیں لی۔ آج پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، جو صرف ایک یا دو انکی ملکیت ہیں، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا ہے، جسکو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے۔
آپ کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی وہاں آا تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوا، کونکہ انکے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوا۔ ایدھی کا شمار پاکستان کے ان صف اول کے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بعداز مرگ اپنے اعضاء عطیہ کرنے کا اعلان کیا اب انہیں خود گردوں کی ضرورت ہے۔
خطرے کی حالت سے باہر ہونے کے بعد ایدھی صاحب نے اپنے معالج معروف سرجن اور ایس آئی یو ٹی (سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ) کے سربراہ ڈاکٹرر ادیب رضوی کے ہمراہ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے اپنے روایتی درویشانہ انداز کا مظاہرہ کیا۔ پچاسی سالہ ایدھی کا جذبہ خدمت جوان تھا وہ اپنے مخصوص سادہ انداز میں کہہ رہے تھے مجھے خدمت کے کام میں آرام ملتا ہے بستر پر لیٹنا پسند نہیں کروں گا اگر خدا کی رضا مندی ہوئی تو ماضی کی طرح اپنا مشن جاری رکھوں گا۔
ایدھی اپنے دھن کے پکے ہیں پریس کانفرنس کے اگلے روز میں نے بیگم بلقیس ایدھی سے ایدھی صاحب کی طبیعت کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ نیچے (ایدھی ہوم بولٹن مارکیٹ) اپنے دفتر میں بیٹھے ہیں بستر سے اٹھنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے دفتر میں آئے ہیں ہمارے کام کا پورا نظام موجود ہے بہت سے لوگ ہیں میں اور میرا بیٹا فیصل بھی تمام معاملات سنبھالتے ہیں مگر ایدھی صاحب جب تک کام کی خود نگرانی نہ کریں انہیں چین نہیں ملتا۔