گوداموں کی صاف ستھرائی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کشادہ کرنے کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کو درمیان کہ گیارہ ماہ کِس قدر کانٹوں پر سونا پڑتا ہے رمضان شریف کا چاند دیکھتے ہوئے اِن کے شیطان صفت مکھڑے سے اہلِ نگاہ پر یہ سارا بھیت عیاں ہو جاتا ہے۔ یورپ کے رہنے والوں میں عقل اور شعور نام کے جراثیم ذرا برابر بھی موجود نہیں وہ لوگ اپنے تہواروں خصوصی طور پر کرسمس کے موقع پر اشیائے خوردو نوش اور ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء میں نمایا ں کمی کر دیتے ہیں جو کِسی صورت عقل مندانہ فیصلہ نہیں۔ ہم پاکستانی بے وقوف نہیں جال پھیلائے فضول میں بیٹھے رہیں اور جب مچھلیاں آن پہنچیں تو جال کو وہی دریاں میں پھینک کر مچھلیوں کی آزادی کا جشن منائیں۔
ہم ہر کام بڑی عقلمندی، ہوشیاری، چالاکی، اور ایمانداری سے سر انجام دیتے ہیں ہم سے یہ بات بھی دھکی چھپی نہیں کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند برا لگتا ہے۔امسال بھی مسحور کن اعلانات کر دیے گئے ہیں کہ ماہِ رمضان میں آٹا، گھی، چینی، کھجوریں، بیسن، دال چنا، دودھ، مشروبات میں 10 سے 5 فیصد تک سبسڈی دی جائے گی جِس کیلئے یو ٹیلٹی سٹورز کا رپوریشن کے ذریعے دو ارب روپے کا رمضان ریلیف پیکج بنا لیا گیا ہے اِس پیکج میں مذید اضافے کاا مکان ہے۔ لہذا… مشتری ہو شیار باش ! مالِ غنیمت جمع کرنے کیلئے خاص قسم کی حکمتِ عملی اپنالی جائے۔ ہم اپنی قسمت ہر سال کی طرح اِمسال بھی خوب چمکائیں گے۔ سر پر سفید نیل سے چمکتی اور عطر سے معطر ٹوپی ہوگی ،لباس بھی خوب اجلا اور بے داغ زیبِ تن ہو گا، پانچوں وقت جبیں بھی سجدہ ریز کریں گے۔
منہ میں روزہ تو ہو گا ہی ہاتھ میں تسبیح بگل میںمصلح جہاں سامانِ آخرت جمع کر رہے ہوں گے وہاں اگر چند ماہ کا سامانِ دنیا (مالِ غنیمت) کوبھی سمیٹ کر جمع کر لیں گے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ پچھلے رمضان پپو فراڈی نے اپنے فیکٹری کے تین سو ملازمین کو تین سو مرتبہ استعمال کیا پورے رمضان تمام ورکرز اپنے اپنے شیڈول کے مطابق بچت بازاروں اور یوٹیلٹی سٹورز پر جاتے اور آٹا، گھی، چینی، چاول وغیرہ لے آتے۔ ایک اَن پڑھ گمنام غریب اپنی سوانحہِ حیات میں لکھتا ہے کہ گزشتہ روز میں دو کلو آٹے کیلئے دس دکانوں پر گھوما مگر آٹا نہیں جواب مِلا کہ بس چند دِنوں کی تو بات ہے ذرا صبر کر لو روزے آنے والے ہیں پھر آٹا ہی آٹا ہو جائے گا ایک اور گمنام اَن پڑھ غریب راوی لکھتا ہے۔
Month Of Ramadan
ہم غریبوں کے روزے ضدی نہیں جو رنگ رنگ کی فرمائشیں کریں ہمارے روزے تو نمک اور پانی سے بھی با خوشی افطار ہوجاتے ہیں۔ وہ غریب مزید لکھتا ہے کہ ماہِ رمضان کی آمد سے قبل ہی پتھر کے بنے فروٹ گھر میں لا کر رکھ لیتا ہوں تا کہ معصوم بچوں کا دِ ل بہلایا جا سکے کیونکہ رمضان میں 100 گناہ مہنگے فروٹ خریدنا میرے بس کا کام نہیں۔ ماہِ رمضان میں ایک بہترین کاروبار گدا گری (بھیک مانگنا ) بھی ہے۔ جتنا جلدی ہو سکتا ہے اپنے اثرو رسوخ کے ذریعے جلد از جلد اپنی جگہ بُک کر وا لیںقبل اِس کے ، کہ تمام سگنل، فوٹ پاتھ، مارکٹیں، پارکیں وغیرہ پر بیرونِ شہر سے آنے والوں کا قبضہ ہو مقامی لوگوں کا پہلے حق بنتا ہے۔
گزشتہ سال گدا گری ایکٹ کے تحت بھیک مانگتے ہوئے گرفتار ہونے والے خواجہ سرا بھکاری نے عدالت میں جج کو بتا یا تھا کہ رمضان المبارک میں دیگر تقریبات، فنکشن، شادی بیاہ کی پارٹیاں وغیرہ نہیں ہوتیں اِس لیے مجبورا ً ہمیں بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ آپ کو اپنا بھیک مانگنے کا ذاتی کاروبار کرنے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہ ملے تو آپ کو ماہِ رمضان میں ہر نماز دوسری یا تیسری صف میں پڑھنی ہو گی اور نماز کے اختتام پر فورا ً قبل از دعا کھڑے ہو کر چند مجبوریاں گنوائیں اللہ عزوجل کے گھر میں کھڑے ہو کر اللہ سے نہیں اللہ کے بندوں سے مانگیں، دنیاوی کاروبار میں ترقی ہو گی، بس آپ کے پاس بھی خواجہ سرا جیسے پختہ دلائل ہونے چاہیں۔ شیخ واجد میں عاجزی و انکساری تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ موصوف قانوں دان تو نہیں مگر قانون کا قدردان ضرور ہے وہ جانتا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی کِس مخلوق کو کِس طرح خوش رکھنا ہے۔
دنیا والوں پر یہ رازِ درویشانہ عیاں ہونے کا خوف نہ ہو تو رمضان المبارک میں وہ ہر نعمت اپنے بیڈ روم تک میں بھی محفوظ کر لے اور خود بالکونی میں فقیرانہ زندگی بسر کرے ۔ پچھلے سال انہوں نے میرے اسرار پرملنگو کو اپنی زکواة کے مصارف میں شامل کر لیا اوراُسے اٹیچی کا منہ کھول کے لاکھوں روپے تھما تے ہوئے دو ،چار تصاویر بھی بنوالیں۔ ملنگو کرسی پر بیٹھا نوٹوں سے بھرے اٹیچی کو بھوکی بلی کی کی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ اُسکے سامنے ایک اسٹام پیپر آگیا جِس پر لکھا تھا میں اپنے حوش و حواس میں اٹیچی میں موجود تما م رقوم شیخ واجد کے نام کرتا ہوں تاکہ وہ اپنے کاروبار میں مذید وسعت پیدا کر کے بہت سے مجبور اور بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کر سکیں ساتھ ہی ملنگو کے ہاتھ میں سائن انگوٹھے کیلئے قلم اور پیڈ بھی تھما یا دیا گیا تھا۔
Allha
امسال بھی بیشمار دردِ دِل رکھنے والے گمنام سخی لاکھوں کے راشن کے ہمراہ کئی اینگلز سے مختلف خوش رنگ لباس زیبِ تن کر کے تصاویر بنوائیں گے ان تصاویر کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرنا مقصود ہو گا۔ پورے رمضان مختلف اخبارات میں جب یہی رنگین تصاویر شائع ہوتیں ہیں تو ذرا سوچیں اِن گوشہ نشین سخی درویشوں کے دِل پر کیا بیتتی ہو گی۔ یہ سادہ لوح فقیر لوگ کِسی سے نظر مِلانے کے قابل تک نہیں رہتے اور بامشکل صرف اتنا ہی کہہ پاتے ہیں کہ یہ میڈیا والے بھی نہ … اِن سے چھپنا ناممکن ہے۔ ضروری تو نہیں کہ راشن کے توڑے فضول میں بانٹے جائیں رشتہ دار ،دوست احباب خواہ کتنے ہی صاحبِ استطاعت کیوں نہ ہوں اب راشن تو ہر بشر کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ماہِ رمضان میں شیطان قید ہوجا تاہے مگر اپنے تربیت یافتہ چیلوں جنہیں پورے گیارہ ماہ کی ٹریننگ بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ دی جاتی ہے اپنا نائب بنا کر چھوڑ جاتا ہے۔ بچت بازار کے اسٹال مالکان کو سستی اشیاء فراہم کی جائیں گیں۔
یقینا اِن اسٹال مالکان کی ذاتی ایک آدھی پرچون یا فروٹ کی دوکان بھی ہوگی جسے بیٹا، بھائی، چچا، تایا، بابا وغیرہ بھی چلا سکتے ہیں اب اگر وہاں بھی یہ سستا سامان پہنچا یا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج تو نہیں، چھپ چھپا کر یا چوری چھپے ،خفیہ انداز سے یہ اشیاء مقامِ محفوظ تک پہنچانا چور اور لٹیروں کی نظرِ بد سے بچانے کیلئے انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ وقتِ افطار کیلئے کثیر تعداد میں لیمن جوس کے Artificial Flavor مجبوری کے تحت مارکیٹ میں آ چکے ہیں کیونکہ اصل اور خالص لیموں کا رس ڈش واش سوپ میں استعمال ہونا ہے بات ماہِ رمضان کی ہو رہی ہے تو اِس حوالے سے ایک اور اہم بات گوش گزار کر تا چلوں کہ رات عشاء کے بعد اللہ والے جب نمازِ تراویح میں مشغول سر سے پائوں تک پسینے میں تر قرآن پاک کی تلاوت کا میٹھا میٹھا رس کانوں میں گھول چکے ہوں گے۔
عین وِتروں کے وقت اچانک لائٹ آئے گی تو نچڑتے ہوئے کپڑوں سے ہوتی ہوئی بھیگے جسموں کو جب پنکھوں کی AC سے بھی ٹھنڈی ہوا چھوئے گی تو سارے دِن کے کام کی تکان اور روزے کی شدت کا احساس سیکنڈوں میں دھواں ہو جائے گا اور یہ بھی نیپرا کا مسلمانوں پر ایک احسانِ عظیم ہو گا۔ یہ کریڈٹ بھی واپڈا ( نیپرا) کو ہی جائے گا کہ اِس ہی کی بدولت ماہِ رمضان کی ہر بابرکت رات میں غریب عوام کا رت جگا ہو گا اور صبح روزے کی حالت میں محنت مزدوری کیلے جائیں گے۔ بے شک کِسی بھی قوم کی ترقی کا اندازہ اِس کی رات دِن کی محنت سے با خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ صحیح مسلم شریف حوالہ (ص١٤٩٣؛حدیث :٢٥٨١) حدیثِ مبارکہ ہے کہ تاجدارِ مدینہ منورہ ؛سلطانِ مکہ مکرمہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام سے استفسار کیا۔
کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ اکرام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے مفلس وہ ہے جِس کے پاس درہم دنیاوی سامان نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اُمت میں مفلس ترین وہ شخص ہے جو قیامت کے دِن نماز، روزہ، زکواة تو لے کر آئے گا مگر ساتھ ہی کِسی کو گالی بھی دی ہو گی، کِسی کو تہمت لگائی ہو گی، اُس کا مال نا حق کھایا ہو گا، اُس کا خون بہایا ہو گا، اُس کو مارا ہو گا، پس اِن سب گناہوں کے بدلے میں اِس کی نیکیاں لی جائیں گی، پس اگر اُس کی نیکیاں ختم ہو جائیں اور مزید حقدار باقی ہوں تو ان (مظلوموں ) کے گناہ لے کر بدلے میں اس (ظالم) پر ڈالے جائیں گے، پھر اس شخص (ظالم) کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
Mohammad Ali Rana
تحریر : محمد علی رانا چیئر مین ”وومنز اینڈ چلڈرن ویلفیئر آرگنائزیشن ” (W.C.W.) 0300-3535195