عوامی جمہوریہ چین موجودہ چین کو کہتے ہیں اور جمہوریہ چین سے مراد تائیوان اور اس سے ملحقہ علاقے ہیں۔چین ایک ایسا ثقافتی اور قدیم تہذیب کا علاقہ ہے جو ایشیا کے مشرق میں واقع ہے۔ چین کو دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے جو کہ آج ایک کامیاب ریاست کے روپ میں موجود ہیں اور اس کی ثقافت چھ ہزار سال پرانی ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد ہونے والی چین کی خانہ جنگی کے اختتام پر چین کو تقسیم کرکے دو ممالک بنا دیا گیا۔
ایک کا نام عوامی جمہوریہ چین اور دوسری کا نام جمہوریہ چین رکھا گیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے کنٹرول میں مین لینڈ، ہانگ کانگ اور میکاؤ، جبکہ جمہوریہ چین کا کنٹرول تائیوان اور اس کے ملحقہ علاقوں پر تھا۔چین کی تہذیب دنیا کی ان چند ایک تہذیبوں میں سے ایک ہے جو بیرونی مداخلت سے تقریبا محفوظ رہیں اور اسی وقت سے اس کی زبان تحریری شکل میں موجود ہے۔ چین کی کامیابی کی تاریخ کوئی چھ ہزار سال قبل تک پہنچتی ہے۔
صدیوں تک چین دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم، مشرقی ایشیا کا تہذیبی مرکز رہا جس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں۔ اسی طرح چین کی سرزمین پر بہت ساری نئی ایجادات ہوئی ہیں جن میں چار مشہور چیزیں یعنی کاغذ، قطب نما، بارود اور چھاپہ خانہ بھی شامل ہیں۔چین کو انسانی تہذیب کے اولین مراکز میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ چین کی تہذیب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ ان معدودے چند تہذیبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے خود سے تحریری زبان ایجاد کی۔
دیگر تہذیبوں میں میسو پوٹامیہ، دریائے سندھ کی تہذیب، مایا تہذیب وار قدیم مصری تہذیبیں ہیں۔ چینی لکھائی ابھی تک چینیوں اور جاپانیوں کے زیر استعمال ہے اور کسی حد تک کورین اور ویت نامی بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ چینی لکھائی واحد تحریر تاحال استعمال میں ہے جس میں ایک حرف پورے لفظ یا جملے کو ظاہر کرسکتا ہے۔
ذکرکیا جائے دیوار چین کا توآرکیالوجی (سائنس کی ایسی شاخ جو ایسی قدیم تہذیبوں کا مطالعہ کرے جو ابھی تک زندہ ہیں) شہادتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ چین کے ابتدائی باشندے تقریبا سوا دو ملین یعنی تقریبا ساڑھے بائیس لاکھ سال پہلے موجود تھے۔ پہلی چینی متحد حکومت اوئن بادشاہت کے دور میں 221 قبل مسیح سے شروع ہوئی جب انہوں نے حکمرانی کا آغاز کیا۔ لیکن یہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی کیونکہ یہ لوگ قانون کی سختی سے پاسداری کرتے تھے جس کے نتیجے میں بغاوت پھیلنا شروع ہوگئی۔
ہن بادشاہت 206 قبل مسیح سے لے کر 220ء عیسوی تک رہی۔ 580ء عیسوی میں چین کو سوئی نے متحد کیا۔ تانگ اور سونت بادشاہتوں کے ماتحت چین کا سنہری دور رہا۔ ساتویں صدی سے چودھویں صدی عیسوی تک ٹیکنالوجی، ادب اور آرٹ کے حوالے سے چین بتدریج دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہوتا رہا۔ 1271ء عیسوی میں منگول رہنما قبلائی خان نے یوآن بادشاہت کا آغاز کیا جو سونگ بادشاہت کے زیر اثر بنی۔ ڑو یوان ڑینگ نامی کسان نے 1368ء میں منگولوں کو باہر نکالا اور منگ بادشاہت کی بنیاد رکھی جو 1644ء تک قائم رہی۔
Monarchy
منچو کی بنائی ہوئی اونگ بادشاہت 1911ء تک قائم رہی جسے بعد میں پوئی نے ختم کیا۔۔ اونگ کی بادشاہت چین کی آخری بادشاہت تھی۔حکومت کی تبدیلی ایک خونریز مرحلہ ثابت ہوتا تھا اور نئی حکومت کو سابقہ حکومت سے وفاداری کا حلف لینے کے لیے بہت سے طریقے لڑانے پڑتے تھے۔ مثال کے طور پر جب منچوس نے چین کو فتح کیا تو انہوں نے ہن چینیوں کی شناخت کو دبانے کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ ہن چینیوں کو منچو جیسے انداز میں بال رکھنے ہوں گے۔
اٹھارہویں صدی میں چین کو مرکزی ایشیا کی ان اقوام پر واضح ٹیکنالوجییکل برتری حاسل ہو چکی تھی جن سے چین کئی صدیوں سے جنگیں کرتا چلا آرہا تھا۔ لیکن یہ برتری یورپ سے کم تھی۔1978ء کی مین لینڈ میں اصلاحات کے بعد انھیں کچھ شعبہ ھائے زندگی میں رعایات دینی پڑیں۔تاھم چینی حکومت کے پاس ابھی تک سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل تھا اور اس نے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کو ھٹانے کا کام جاری رکھا۔ مثالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ، سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو جیل بھیجنا، پریس پر کنٹرول، مذاہب کی اصلاح اور آزادی کی حامی تحاریک کو کچلنا شامل ھے۔
1989ء میں تیانانمین سکوائیر میں احتجاج کرنے والے طلبا کو چینی فوج نے پندرہ روزہ مارشل لا میں ٹھکانے لگا دیا۔1997ء میں ھانگ کانگ برطانیہ کی طرف سے عوامی جہموریہ چین کے حوالے کیا گیا اور 1999ء میں مکاؤ کی پرتگال کی طرف سے واپسی ہوئی۔ چین کے عظیم رہنما ما ئو زے تنگ نے ایک مختصر سی کہا نی لکھی تھی کہ ایک چینی مز دو ر نے اپنے مختصر سے کنبے کے لیے ایک کوٹھا بنایا۔ کوٹھے کے مغرب کی طر ف گھنا جنگل تھا۔ اس لیے اْس نے کو ٹھے کا دروازہ مشرق کی طرف کھولا۔ کوٹھے کے آگے چھوٹا سا صحن تھا۔
اب مصیبت یہ پیش آئی کہ مشرق کی طرف چٹان تھی جو دھوپ روک لیتی تھی۔ بیوی نے کہا اب کیا کرو گے ،چینی مزدور نے کہا اس چٹان کو یہاں نہیں ہونا چاہیے میں اسے یہاں سے ہٹا دو نگا۔ بیو ی بچے ہنس کر چپ ہو گئے مگر وہ دْھن کا پکا تھا۔ اْس نے چٹان کو کھودنا شروع کیا ،دن رات میں جتنا وقت بھی ملتا بڑی مستعد ی سے پتھر توڑتا پھر اس کام میں بیوی بچے بھی شریک ہونے لگے۔ مشقت ہوتی رہی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ اْسکے کو ٹھے کے دروازے اور سورج کے درمیان حائل ہو نے والی چٹان نیست و نابود ہو گئی۔ یہ تو ایک کہانی تھی لیکن گراں خواب افیونی چینی قوم کو آزاد ، خودمختار، بیدار مغز اور مستحکم قوم بنانے میں مائو اور اْسکے انقلابی ساتھیوں نے بھی طویل مشقت اور جد و جہد کی اور بالاخر مائو نے اپنی بیان کردہ کہانی سچ کر دکھا ئی۔ چین کی تا ریخ پڑھنے والا ہر شخص کل اور آج کے چین کو دیکھتا ہے تو حیر ت اور استعجا ب سے تصویربن جاتا ہے۔
لیکن پاکستان کو ابھی نصف صدی ہوئی ہے آزادی حاصل ہوئے ۔وسائل ہونے کے باوجود لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں۔ لگتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کوپاکستانی قوم کی اتنی فکر نہیں جس قدر اپنے اقتدار کی ہے ۔ اسی لیے نئے نئے تجربات کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے خبر ہے کہ پنجاب پولیس کے بجٹ میں 9ارب روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ مالی سال 2012ـ13ء کے 61ارب کے بجٹ کے مقابلے میں نئے بجٹ میں پولیس کے لئے 70ارب 51کروڑ 53لاکھ 33ہزارروپے رکھے گئے ہیں۔
ان میں سے 61ارب 27کروڑ 19لاکھ روپے پنجاب کے ایک لاکھ 77ہزار پولیس اہلکاروں اور افسران کی تنخواہوں پرخرچ کئے جائیں گے جبکہ ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں کے لئے 9ارب 24کروڑ 33لاکھ روپے مخصوص کئے گئے ہیں۔ اور بتایاجاتاہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب پولیس میں 500 سب انسپکٹرز بھرتی کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔
جبکہ اس دوران پولیس کی اعلیٰ قیادت میں جرائم کی سرکوبی کے مفاد میں کچھ اہم تبدیلیاں بھی کی گئی تھیں جوکچھ زیادہ بارآور ثابت نہیں ہورہیں اور یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر بھیانک انداز میں سامنے آئی ہے کہ چہرے بدلنے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ تبدیلی لانے کے لئے نظام کو بدلنا پڑتا ہے۔ اب وارداتوں میں اس قدر اضافہ ہو چکاہے جن کی اصل مالیت ہمارے احتساب بیورو کو بھی معلوم نہیں ہوگی۔ معلوم ہو بھی نہیں سکتی کہ چوروں اور ڈاکوؤں کی تمام وارداتیں قانون اور آئین کے تقاضوں اور اصولوں کی پابندی کرتے دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔