اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے جس کا معاشرتی نظام انتہائی سادہ ،پرکشش اور عمدہ ہے۔ جو ہر قسم کی قانونی پیچیدگیوں سے پاک اور مبرا ہے۔ جس کا تعارف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کرایا ہے۔
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ (الحج :٧٨)
نبی کریم ۖ نے اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ: اسلام سیدھا سادہ اور یکطرفہ دین ہے۔
قارئین یہ وہ دین ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ کی رہنمائی کا سامان رکھا گیا ہے تاکہ انسان دنیا و آخرت کی فلاح و نجات اور کامیابی اور کامرانی حاصل کرسکے اور اس کا معاشرتی نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہوسکے یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرہ کی بقا اور ترویج کے لیے مرد اور عورت کو تخلیق کیا اور ان کو ازدواجی بندھن میں پرونے کی ہدایت فرمائی تاکہ انسان شرعی نکاح کے ذریعے اپنی نسل کی ترویج کے لیے کوشاں ہو۔ اس مقصد کے حصول اورتکمیل کے لیے عورت کو نصف انسانیت قرار دے کر انسانی معاشرہ میں اسکا وقار اور عظمت بلند کیا تاکہ کوئی بھی اس کو اپنی حوس کی بھنیٹ نہ چڑھائے ۔
عورت کے بغیر انسانی زندگی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی معاشرہ میں عورت کو بازئچہ اطفال بنایا گیا اور اس کی عفت و عصمت کی چادر کو چاک کیا گیا تو انسانی معاشرہ میں بگاڑ اور بدامنی نے جنم لیا۔ جنابِ نبی کریم ۖ نے مقامِ نبوت پر فائز ہوتے ہی عورت کی عزت و عصمت کی پاسبانی کرتے ہوئے اس کو اعلیٰ مقام دیا اور جاہلیت کی تمام رسومات کو روندتے ہوئے اس کے معاشرتی کردار اور مقام کی وضاحت فرمائی اور معاشرہ میں عورت کے متعلق قائم نظریات اور توہمات کی بیخ کنی کی تاکہ عورت اپنے مقام کو پاسکے۔
لیکن اندھی تقلید میں گرفتار علماء نے اپنے نظریات کے تحفظ کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح نفوص میں تاویلات کر کے شکوک و شبہات کو پیدا کر کے عوام الناس کو الجھا کر اصل دین سے کوسوں دور کردیا۔انہی الجھانوں میں ایک الجھن طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں ۔اسی موضوع کو آگے لے کر چلتے ہوئے ایک پرانہ اسکینڈل قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ آج سے تقریباً 20 سال پہلے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور ادکار عثمان پیرزادہ اور انکی اہلیہ سمینہ پیرزادہ کا ایک اسکینڈل سامنے آیا تھا۔
ٹی وی کے یہ دونو ں مشہور ادکار ایک ٹی وی ڈرامہ میں اپنی اداکاری کے دوران میاں بیوی کا کردار نبھارہے تھے اس ڈرامہ میں عثمان پیرزادہ نے اپنی بیوی کو طلاق دینی تھی لہذا اس نے ڈرامہ میں پرفارم کرتے ہوئے اپنی بیوی کو تین طلاق بول دیں اب چونکہ بیوی کا کردار عثمان پیرزادہ کی حقیقی بیوی سمینہ پیرزادہ نبھا رہی تھیں حنفی علمائوں نے فتویٰ لگادیا کہ جناب انکی حقیقی طلاق واقعے ہوگئی ہے اور تقریباً تمام حنفی علمائوں نے اس فتوے پر اتفاق بھی کیا۔
Devoce
یہ دونوں اداکار جو حقیقی میاں بیوی تھے پریشان ہوگئے اور اس بات کو ماننے سے صاف انکار کر دیا اور اپنی صفائی پیش کرنے لگے بقول سمینہ کہ ایسا قرآن حدیث سے کہیں ثابت نہیں ہے میں ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوں اس فتوے کو کیسے مان لوں ۔ لیکن حنفی علمااپنے فتوے پر بضد رہے اور کہنے لگے ہم امام کے مقلید ہیں۔ جب یہ بات کافی مشہور ہوگئی تو بات اہلحدیث علمائوں تک پہنچی ان دونوں نے ان سے رابطہ کیا اہلحدیث علمائوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے فتوے جاری کئے اور کہا کہ اب تک آپ کی صر ف ایک طلاق واقعے ہوئی ہے لہذا آپ رجوع کا حق رکھتے ہیں ۔ اور آپ کی ابھی دو طلاق باقی ہیں۔اور اس طرح یہ مشہور اداکار آج اپنی دو طلاق کے سہارے اپنی کامیاب اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
قارئین یہ بات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ آج ہمارا موضوع طلاق کے وہ ایشوز ہیں جن کے اوپر لو گ خود کو گمراہیوں کے گھپ اندیھروں میں داخل کرلیتے ہیں اپنی اچھی خاصی زندگی کو خود ساختہ عذاب میں مبتلا کرڈالتے ہیں۔اور ساتھ ساتھ اللہ اور اسکے رسول ۖ کی نہ فرمانی کرکے آخرت میں بھی عذابِ الٰہی کے مستحق بن بیٹھتے ہیں۔اس طرح اپنی لاعلمی اور ناسمجھی کی بنا پر دنیا و آخرت دونوں ہی تباہ کرڈالتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ایک دوست کامران اور اس کی اہلیہ افشین کے ساتھ بھی پیش آیا ۔کامران نے اپنی اہلیہ افشین کو ڈیرھ سال قبل ایک طلاق دی اور پھر رجوع کرلیا۔
ڈیرھ سال بعد گھریلوں ناچاکی میں مزید شدت آگئی تو کامران نے غصے کی حالت میںمزید طلاق کے دو الفاظ ایک ساتھ منہ سے نکال دیئے افشین کے میکے والوں نے اس واقعے پر ایک حنفی فتویٰ لے کر آگئے کہ جناب ایک طلاق آپ نے پہلے دی تھی اور دو ایک ساتھ ابھی دیدیں لہذا ٹوٹل تین طلاق ہوگئیں۔ کامران کا تعلق جماعتِ اہلحدیث سے تھا اس کے مطابق طلاق واقعے نہیں ہوئی تھی۔ لیکن افشین کے میکے والوں نے اہلحدیث کے فتوے کو ماننے سے صاف انکار کردیا ۔اب تو کامران اور افشین سرپکڑ کر بیٹھ گئے جو بھی ناچاقیا ں تھیں سب محبت میں بدل گئیں اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کا سوچتے بھی تو روح کانپنے لگتی ۔
قارئین یہ وہ اختلافی مسلہ ء ہے جس پر تفصیل سے بات کی جاسکتی ہے اور با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ :
القرآن: اطاعت کرو میری اور رسول کی تابعین و تبع تابعین کی اور وقت کے حکمرانوں کی اور اگر جھگڑ پڑو آپس میں تو لوٹ آئو اللہ اور اسکے رسول کی طرف۔
یعنی کے جب دین میں کسی مسلئے پرامت کا اختلاف ہوجائے تو اسے قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کرو۔ یہی سب سے بہتر اور احسن طریقہ ہے اور اللہ کی فرمابرداری بھی ۔اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو یقینا گھاٹے میں رہیں گے ۔ گمراہی سے کبھی نہیں نکل پائیں گے۔لہذا ہر مسلمان کو اپنی اصلاح قرآن و حدیث کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے۔
طلاق کے حوالے سے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صاف اور واضح ارشاد فرمایا ہے۔
ترجمہ:رجوع والی طلاق دو مرتبہ ہیں ،پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا۔ (القرآن آیت نمبر228 )
اس کی تفسیر قرآن میںیوں ہے : یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے ۔پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کرسکتا ہے ۔ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا ۔آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرلیتا تھا اس طرح اسے نہ بساتا تھا نہ آزاد کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کا راستہ بند کردیا اورمسلمان کو دو بار رجوع کا حق دے کر پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے بھی محروم نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق میں ہی ہمیشہ کے لیے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔
Quran kreem
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ” طلقتانِ” (دو طلاقیں) نہیں فرمایا بلکہ” الطلاق مرَتَانِ ” (طلاق دو مرتبہ ) فرمایا ہے ۔جس سے اس بات کی طرف واضح اشارہ فرمادیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور اسے نافذ کرنا حکمِ الٰہیہ کے خلاف ہے۔حکمتِ الٰہیہ اس بات کی متقاضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد چاہے وہ ایک وقت میں ایک کہی گئی ہو یا ایک سے زیادہ بار کہی گئی ہو اور اسی طرح دوسری مرتبہ بھی طلاق کے بعد چاہے وہ ایک وقت میں ایک کہی گئی ہو یا ایک سے زیادہ بار کہی گئی ہو مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلد بازی یا غصے میں کئے گئے کا م کے ازالے کا موقع دیا جائے۔یہ حکمت ایک مجلس میں تین طلاقوں کو ایک رجعی قرار دینے میں ہی باقی رہتی ہے نہ کہ تینوں کو بیک وقت نافذ کرکے سوچنے اور غلطی کا ازالہ کرنے کی سہولت سے محروم کر دینے کی صورت میں۔
حقیقت میں شریعت نے جس طلاق کو مغلظہ بائنہ قرار دیا ہے وہ تین مرتبہ تین وقفوں (Periods ) کے ساتھ دی جانے والی الگ الگ طلاقیں ہیں نہ کہ ایک وقت میں اور ایک ہی سانس میں دی جانے والی تین طلاقیں ۔اسلامی شریعت نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے ۔حدیث کی کتاب سنن نسائی،کتابُ الطلاق 89/جلد 2 میں ہے کہ جب بنی اکرم ۖ کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ایک شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دیدی ہیں تو آپۖ نے اظہارنارضگی فرمایا اور فرمایا کہ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔
احناف کی مشہور کتاب ہدایہ جلد 2 / 355 میں باب الطلاق السنتہ میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو بدعت کہا گیا ہے اور اس طرح طلاق دینے والے کو عاصی و گنہگار بتایا گیا ہے۔ ایک مجلس میں ایک ہی لفظ میں تینوں طلاقوں کو دے دینا یعنی طُہرواحد میں کلمہ واحدہ کے ساتھ تینوں طلاقیں دے دی جائیں ایسی تینوں طلاقوں کے بعد شوہر کو رجعت کو پورا پورا حق ہے۔
امام تیمیہ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دو طلاقیں ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ دومرتبہ ہیں یعنی دو مرتبہ کر کے دو ہیں۔ پس اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے تجھے دو طلاقیں ہیں یا دس طلاقیں ہیں یا ہزار طلاقیں ہیں تو یہ طلاق ایک ہی مانی جائے گی،(فتوہ ابنِ تیمیہ رحمتہ اللہ جلد 3 / 47 طبع قدیم مصر)
حافظ ابنِ القیم رحمتہ اللہ فرماتے ہیں: لغت ِعربی اور دینا کی تما م زبانوں میں مَرٰتَان سے مراد مَرَتَن بعد مرتن ہے (یعنی ایک کے بعد دوسری دفعہ )نہ کہ صرف لفظی تکرار، اس کی تائید قرآن مجید اور حدیث شریف اور کلامِ عرب سے ہوتی ہے۔
علامہ ابو بکر حصاص حنفی کا قول ہے کہ : الطلاق مرتان ِ کا مطلب دو طلاق کو دو مرتبہ میں واقع کر نے کا حکم شامل ہے توجس شخص نے دو طلاق ایک ہی دفعہ میں ایک ہی وقت میں دی اس نے حکمِ الٰہی کی مخالفت کی ۔
اب حدیث کی طرف آتے ہیں،صحیح احادیث کی رو سے ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک ہی لفظ ہو کے تجھے تین طلاق یا تجھے طلاق تین بار کہا جائے ایک ہی شمار ہوگی ۔ ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو عدت کے اندر رجوع کا پورا پورا حق ہے۔ اگر عدت کے اندر رجوع کرلیا جائے تو نئے نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر رجوع نہ کیا تو تجدیدِ نکاح ضروری ہے۔مندرجہ ذیل حدیث سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ کے عہد ِمبارک میں اور حضرت ابوبکر کے زمانہ میں اسکے بعد حضرت عمر فاروق کے پہلے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔(مسلم شریف جلد ١ )
دوسری حدیث شریف میں بھی واضح بیان ہے۔ ابو الصہباء نے عبداللہ بن عباس سے فرمایا کی لائو جو آپکے پاس علمی مسائل ہوں ۔ کیا تین طلاقیں رسول اللہ ۖ کے عہد ِ مبارک میں اور ابو بکر کے زمانے میں ایک ہی نہ تھیں ، ابنِ عباس نے فرمایا بیشک ایک ہی تھیں ۔
ایک اور بلکل واضح حدیث ہے۔ حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ رُکانہ بن عبدیزید مطلبی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دیں پھر بہت ہی غمگین ہوئے ۔ رسول اللہ ۖ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کس طرح تم نے طلاق دی ؟ انھوں نے عرض کیا کہ میں تو تین طلاق دے چکا ۔ آپۖ نے فرمایا ایک ہی مجلس میں ؟ کہا ہاں ۔ آپ ۖ نے فرمایا تو پھر وہ ایک ہی ہے اگر چاہوں تو رجوع کرلوں چناچہ انھوںنے رجوع کر لیا ۔ (بخاری و مسلم شریف)
Rasool kareem s.a.w.w
ایک اور واضح حدیث ہے کہ: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عہدِ نبوی ۖ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں (اکھٹی ) دیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ رجوع کر لو اس آدمی سے کہا کہ میں تین طلاق دے چکا رسول اللہ ۖ نے فرمایا مجھے معلوم ہے اور نبیۖ نے یہ آیت پڑھی ۔ یٰاَتُھَاالنبیُ اِذَا طَلَقتُمُ النسائ آخر تک پڑھ کر ارشاد فرمایا اپنی بیوی سے رجوع کرلو۔
اس کے علاوہ بخاری و مسلم کی ایک اور واضح حدیث ہے کہ: حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ناپاکی(حیض) کی حالت میںتین طلاق دے دیں۔حضرت عمر فاروق نے آپۖ سے دریافت کیا آپۖنے فوراً رجوع کا حکم فرمایا ۔آگے تفصیل میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا گیاکہ تم نے کتنی طلاقیں دی تھیں تو انھوں نے بتایا تین جو کہ ایک ہی ہے۔
ان احادیث سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی واقع ہوتی ہیں اور اس پر محمد رسول اللہ ۖ کی مُہر ثبت ہے۔ اس لیے ہماری مسلمان بھائیوں سے گذارش ہے کہ وہ فقہاء کی مُہر کو چھوڑ کر مُہرِ محمدی کو اختیار کریں اور سکہء فقہا ء کو چھوڑ کر سکہ ء محمدی کو لازم پکڑیں ۔ کیونکہ وہی مسئلہ قابلِ قبول ہے جس پر مُہرِ محمدی ہو۔
قارئین اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم کریں اور ہمیں اپنے اصل دین خالص دین ،دینِ اسلام پر قائم و دائم رکھیں اور صرف جنابِ نبی کریم ۖ کے طریقے اور ان کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں(آمین)ورنہ لوگوں میں گمراہی کا یہ عالم ہے کہ اگر آج کے معاشرے میں دیکھا جائے تو تقریباً نوے فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک وقت میں تین طلاقیں نہیں دیں گے تو طلاق ہی واقع نہیں ہوگی اور یہ کہ نہ صرف عوام اس جہالت میں مبتلا ہیں بلکہ کورٹوں اور کچہریوں میں بیٹھے ہوئے ایل ۔ایل ۔بی (L.L.B)کی ڈگریا ں رکھنے کے باوجود جب کسی کا طلاق نامہ بناتے ہیں تو اس میں بھی تین طلاقوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
عوام کی اکثریت احسن اور حسن طلاق کے طریقوں سے واقف ہی نہیں وہ تو اکھٹی تین طلاقیں دینا ہی جانتے ہیں ۔ آخر ان عورتوں کا احساس کیوں نہیں کیاجاتا جو بیس تیس سال شوہر کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں ۔ کسی بات پر شوہر ان کو اکھٹی تین طلاقیں دے دیتا ہے۔ حنقی علماء تو اس کے لیے حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہونے کا فتویٰ جاری کردیدتے ہیں ۔ کوئی دوسرا ان کی کبر سنی یا کسی اور عذر کے باعث ان کو قبول کرنے کے لیے تیا ر نہیں ہوتا۔ مہنگائی کی وجہ سے اپنے بھی اسے بوجھ تصور کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی کوئی ایسا معقول بندوبست نہیں جس کے ذریعے اس کی کفالت کی جائے ۔
Events
اسی طرح کے دو دلخراش واقعات کا ذکر آپ قارئین کے سامنے پیش کر نا چاہوں گا۔ ایک صاحب جو اچھے خاصے دیندار معروف تھے 50-60 سا ل کی عمر تک ساتھ رہنے کے بعد ایک ساتھ تین طلاقیں اپنی بیوی کو دیدیں ۔ کچھ دنوں تک تو عورت نے خود کو سنبھالا دئیے رکھا مگر اس کے خاندان کی غربت اور معاشی پریشانی کی وجہ سے وہ اس قدر بدھال ہوگئی کہ اس کے دماغ پر جنون کے اثرات ہوگئے۔ اب وہ دربدر کاسہء گدائی لے کر اپنا پیٹ بھرتی ہے اسی طرح دوسرا واقعہ میری نظر میں ہے ۔ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں ۔
شادی کے وقت دونوں غریب تھے مگر عورت کی محنت اور کوشش سے محلہ والوں کا کہنا ہے کہ چند برسوں میں اللہ نے وسعت دی ۔اب وہ ایک پختہ مکان اور ایک کارخانہ کے مالک ہوگئے تھے ۔ بس اچانک کسی گھریلوں معاملہ میں بگڑ گئی اور شوہر نے تین طلاقیں دیے دیں علیحدگی کے بعد کچھ دنوں تک عورت زیورات اور گھر کا اثاثہ بیچ کر گزارہ کرتی رہی ۔مگر اب حالت یہ ہے کہ اس کی زندگی باعثِ عبرت ہے ۔ محترم قارئین اللہ تعالیٰ نے ہمیں آسانی پیدا کرنے کا حکم دیا ہے اور تنگی و سختی سے منع کیا گیا ہے ۔
قرآن مجید میں ارشادِپاک ہے۔ ترجمہ : اللہ تعالی تمھارے ساتھ آسانی کا رادہ رکھتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا ۔
ایک اور جگہ پر اللہ اپنے محبوب بندو سے فرماتے ہیں ۔
ترجمہ: اللہ تعالی نے دین کے معاملہ میں تم پر تنگی نہیں بنائی۔
جنابِ نبی کریم ۖ کا فرمان ہے۔ آسانی کر و تنگی نہ کرو۔ خوشخبری دو اور نفرت نہ دلائو۔
آپ ۖ کی سیرت تھی کہ آپ دو معاملوں میں آسانی کا اختیار کیا کرتے تھے ۔ ان دلائل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ معاشرے کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر طلاق کے معاملے میں آسانی پیدا کی جائے ۔ طلاق کی فی نفسہ سنگینی، پھر اصلاح ذات البین ، پھر عورت کی تین ماہواریوں یا(اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل ) تک رجوع کرنے کا موقع دینا۔ نیز دومرتبہ تک اس طرح کا چانس دینا، ان تمام معاملات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو آسانی کو اختیار کیا جائے یہ سب کرنا کسی حرام کے دروازے کو کھولنا نہیں ہے بلکہ قرآن و سننت کے دلائل اور شریعت کی روح کے عین مطابق ہے جیسا کہ ہم مذکورہ کالم میں اوپر بتاچکے ہیں۔ آخر ایک اور بات کا اضافہ کر تے ہیں کہ 1973 میں احمد آباد (انڈیا) میں ایک سیمنار مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی دیوبندی کی صدارت میں ہوا۔ جس میں دو اہلِ حدیث علماء کے علاوہ باقی سب حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والیے عالم تھے ۔ جن کے نام یہ ہیں۔
مولانا محفوظ الرحمن قاسمی ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی ، مولانا سید احمد عروج قادری ، مولانا سید حامد علی ، مولانا شمس پیرزادہ ۔ ان سب نے اس سیمینار میں مقالے پیش کئے کو کہ کتابی شکل میں بعنوان مجموعہ مقالاتِ علمیہ ایک مجلس کی تین طلاق کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ ان سب نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دیا ہے۔ ان مقالات پر جو اعتراضات و مناقشات ہوئے ان کے جوابات بھی اسی کتاب میں شامل ہیں ۔ اور دنیا کے معتد اسلامی ممالک مثلاً مصر ،سوڈان ،اردن ، شام ، مراکش،عراق ، سعودی عرب اور پاکستان کی شرعی عدالتوں میں بھی یہ قانون نافذ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی ہے۔