یہ کیسی عوامی حکومت ہے…؟ کہ جس نے اقتدار سنبھالتے ہی تیل ، گیس، بجلی اور روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اور جی ایس ٹی کے نفاذ کا اعلان کرکے عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر اِسے سُرمہ بنانے اور بس اِسے نچوڑ ڈالنے کا اچھاطریقہ ڈھونڈ نکالاہے، اور آج عوام اِس حکومت کے موجودہ عمل پر یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا اِنہوں نے گیارہ مئی کے عام انتخابات میں ہوش کے بجائے جذباتی نعروں اور ذاتی پسند پر فیصلے دے کر اپنی قبرخود کھود ڈالی ہے…؟
اورآج نواز حکومت کو اپنے عوام سے زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے، جس کو بچانے کے خاطر یہ ایسے اقدامات کرنے پر تلی بیٹھی ہے، جس سے مُلک کے غریبوں کی پریشانیوں اور مشکلات میںاضافہ ہوگیاہے، اوراَب اِسے جس کا خمیازہ پھرکم ازکم دو، ڈھائی یا پھرحکومتی مدت پوری ہونے کے پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا….!
موجودہ حکومت کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یقین جانیئے…!کہ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ پی ایم ایل (ن) کے سربراہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنے موجودہ بجٹ میں عوام کو بے حد مایوس کیا ہے، یعنی اِس بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ، بس عوام کو زیادہ سے زیادہ نچوڑنے کے اقدامات کئے گئے ہیں۔
یہ آیا ہے جب سے عوامی بجٹ غموں میں گزرتاہے ہر ثانیہ سُنائیں کِسے ہم گرانی کا حال دِکھائیں کِسے گھرکا میزانیہ
جیسا کہ شاعر نے بجٹ اور کسی بھی منی بجٹ کے بعد مہنگائی کے بوجھ تلے دبے غریب اور غریبوں کی کیفیت بیان کی ہے، اِس سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ اِس میں لغوکا ایک رتی برابر بھی عنصر شامل ہو، کیوں کہ ہر غریب کے گھر کا میزانیہ ہر بجٹ کے بعد بگڑجاتاہے، اورایسا اِس مرتبہ بھی ہواہے، اور اگرآئندہ بھی موجودہ حکومت قائم رہی تو شائد اگلے برسوں میں بھی ایسا ہی یا اِس سے بھی بدتر بجٹ غریبوں، محنت کشوں اور سرکاری تنخواہ دار طبقے کے لئے پیش کیا جاتارہے گا، ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے۔
یہ ہی دیکھاہے کہ غریبوں کو ہر بجٹ کے بعد مہنگائی کا مقابلہ کرتے اور ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتے اور اِس روزوشب میں خود کو سنبھلتے سنبھلتے چھ سے آٹھ ماہ لگ جاتے ہیں، اور جب اِس کی حالتِ زندگی میں کچھ بہتری کے اثرات نظرآنے شروع ہوتے ہیں توحکومت کی طرف سے پھر اگلا بجٹ مہنگائی اور نئے ٹیکسوں کی ادا ئیگیوں کا بوجھ لئے عذاب بن کر اِ س کمزرو کاندھوں پر آدھمکتاہے ،یعنی جب غریب مہنگائی کے طمانچے کھانے کے بعد اِس سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو تاہے، تو حکومت چارماہ بعد اپنا ایک نیا میزانیے کا عذاب اِس پر نازل کردیتی ہے۔
Budget
اور اِس طرح میرے مُلک کے ہر غریب کی زندگی کے ماہ و سال بجٹ اور منی بجٹ کے بعد مہنگائی کے طوفانوں سے مقابلہ کرنے میں گزرجاتے ہیں، ہمارے یہاں تو کم ازکم گزشتہ 66سالوں سے یہی کچھ ہوتاآرہاہے،غریب کے گھرکا میزانیہ ہر بجٹ میں بگڑ جاتاہے، ایسا لگتا ہے کہ اِس عرصے میں ہماری جتنی اور جیسی بھی (جمہوری یا آمر) حکومتیں آئیں اور اپنے انجام کو پہنچنے کے بعد جیسے بھی گئیں ،یہ سب کی سب غریبوں کے گھر کے میزانیہ کو بگاڑنے کے خاطر ہی اپنا بجٹ پیش کرتی رہی ہیں۔
اور یوں بیچارہ غریب حکمرانوں کو گرانی اور اپنی کسمپرسی کی ببتا سُناتے دنیا سے کوچ کر تارہاہے،اور موجودہ بجٹ کے بعد بھی غربیوں کی جو حالات ہوگئی ہے ، اِس سے توایساہی لگ رہاہے کہ جیسے آج بھی غریب مہنگائی اور مختلف مد میں ٹیکسوں کی ادائیگیوں کے بوجھ تلے دب کر مررہاہے ، مگرحکمرانوں کو اِس کی کوئی فکر نہیں ہے۔
آج بھی حکومت نے اپنے حب الوطنی کے ثبوت دیتے ہوئے، ماضی کی طرح مُلک سے غربت کے بجائے غریبوں کے خاتمے کی منصوبہ بندی کے تحت آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے حکومت کو بھیجی گئی سمری میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری اضافے کی شفارشات کی منظوری دے دی ہے، اوراِس کے بعد مُلک سے غریبوں کے خاتمے کے لئے یکم جولائی 2013سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیاگیاہے ،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکمشت اندھادھن اضافے کے بعد مُلک کا وہ غریب طبقہ جو بجٹ میںکی جانے والی منہ توڑاور سینہ زورمہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات اور پریشانیوںکا شکار تھا۔
مزید مہنگائی اور ٹیکسوںکی ادائیگیوں کے بوجھ تلے دفن ہوکر زندہ لاش بن کر رہ جائے گا، اور اگر یہ اضافہ واپس نہ لیاگیاتو اِس کا اِس مہنگائی کے دور میں زندہ رہنا بھی محال ہوجائے گا، اِس کی اِس پریشانی کے ذمہ دار ہمارے یہی محبِ وطن مگرغریبوں کی حالاتِ زار سے بے حس حکمران ہوں گے،جنہوں نے محض قومی خزانے کو بھرنے کے خاطر تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسوں کی وصولی کے اہداف غریبوں سے پورا کرنے کا ڈھونگ رچا کر غریبوں پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا ہے اوراپنی تسکین کا سامان کیا ہے۔
حکمرانوں کو غریبوں پر تیل، گیس، بجلی کی قیمتوں سمیت موبائل کارڈ کی چارجنگ پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کا حکم واپس لے کر اِنہیں ریلیف دیناچاہئے اور ایسے اقدامات کرنے چاہیں جس سے، صدر، وزیراعظم، اراکین پارلیمنٹ ، صنعت کار، تاجر، زمیندار اراکین پارلیمنٹ و زراعت پیشہ افراد اور وہ بیورکریٹس جن کی تنخواہیں۔
Banks
لاکھوں میں ہیں اور جو قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے اپنی جھولیاں بھربھر کر لوٹ رہے ہیں، اور قومی دولت دیارِ غیر کے بینکوں میں منتقل کر رہے ہیں، اِن سب پر ٹیکسیوں کا نفاذ اضافہ شرح سے کیا جائے، تاکہ اِس سے مُلک کی معیشت کو سہاراملے، اور وہ قومی خزانہ جس سے متعلق موجودہ حکومت کا دعوی ٰ اور یہ کہناہے کہ وہ خالی پڑاہے ،، وہ بھی بھرجائے،اِس پر بقولِ شاعرآج میرے مُلک کا قومی خزانہ اِس لئے خالی پڑاہے کہ:-
کوئی کرتاہے لائسنسوںکا بزنس کسی کا کام ہے ٹیکسوں کی چوری کوئی محتاج ہے نانِ جویں کو کوئی نوٹوں سے بھرتاہے تجوری
اَب ذراسوچیئے …!!کہ جس مُلک میں یہ حال ہو، اِس مُلک کا قومی خزانہ خالی نہیں ہوگا، تو کیا بھرا ہوا ہو گا، اور جس مُلک کے صنعت کار اورتاجر ٹیکسوں کی ادائیگیوں میںچوری کریں، وہ مُلک کس طرح اپنے مسائل حل کرکے خوشحالی کی منزلیں طے کرسکتاہے ،اوراُس مُلک میں خساروں کا بجٹ نہیں آئے گا تو پھر کیا آئے گا…؟،جس سے متعلق شاعر کہتاہے کہ جہاں:-
تاجرانِ حیلہ پرور ہوں کہ صنعت کارہوں ٹیکس دیتے ہیں حکومت کو کہاںیہ نفع خُور کیوں خساروں کا بجٹ آئے نہ اپنے مُلک میں جبکہ ہر آجر ہماری قوم کا ہو ٹیکس چور
اوراَب میں آخرمیں شاعر کے اِس شعر کے ساتھ ہی میں اجازت چاہوں گا کہ:۔
پتے کی بات کہنا چاہتا ہوں جلی حرفوں سے یہ لکھ دیں گزٹ میں دیں گر تاجروزراعت والے ٹیکس پورا خسارہ ر ہ نہیں سکتا بجٹ میں