اگر دہشت گردوں کے خلاف …….!

Boom

Boom

30جون کو پشاور تھانہ بڈبیر کے قریب سڑک پر بارود سے بھری گاڑی اُس وقت ریموٹ کنٹرول دھماکے سے اُڑا دی جب فرنٹیئر کور کا قافلہ پشاور سے کوہاٹ کی طر ف جا رہا تھا اِس دھماکے میں ابتدائی اطالاعات کے مطابق 18 افراد شہید ایک سترہ سالہ سٹے بیچنے والا ،ایک 70 ساہ سبزی فروش جو رزق کی تلاش میں، اُڑا دئے گئے مصروف ترین سڑک ہونے کے ہر طرف تباہی کا منظر تھا انسانی اعضا دور دور تک بکھر گئے چھ اہلکاروں ،تین خواتین، چار بچوں سمیت 47 افراد زخمی ہوئے، کئی زخمیوں کی حالت نازک بیان کی گئی۔

متعدد گاڑیاں تباہ، اور دکانوں کو نقصان پہنچا، اِس حملہ کی خاص بات کہ جب فورسز کا قافلہ گزر رہا تھا ،جس کا مطلب صاف ہے کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہ پاکستان کی رٹ یا براہِ پاکستان پر حملہ ہے مگر حسب روائت صدر اور وزیر آعظم کی طرف سے مذمتی بیان آیا اور بس، کس قدر افسوس اور فکر کا مقام ہے کہ ملک ہی میںایک جگہ سے دوسری جگہ فورسز کی نقل ہو حمل کتنی مشکل غیر محفوظ ہے مگر عسکری قیادت کی طرف سے کوئی فوری بیان نہیں آیا۔

مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے سینئر راہنما علامہ محمد امین شہیدی سیکٹری جنرل پنجاب علامہ عبدالخالق اسدی نے پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے ہاتھوں ایٹمی طاقت کو یرغمال بنانے میں ناہل حکمرانوں بڑا کردار ہے ، مگر جناب یہی ایٹم تو وجہ تنازہ ہے اور یہ اِن دہشت گردوں کی اولین ضرورت ہے جس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے …مگر یہی اہم سوال ہے، کہ چند مٹھی بھر یہ لوگ دنیا کی مانی ہوئی آئی ایس آئی اور فوج کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں کیا مصلحت ہے۔

کہ یہ لوگ جب چاہیں جہاں چاہیں کاروائی کرنے میں آزاد ہیں کوئی روکنے والا نہیں دوسری طرف کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن میں امام بارگاہ کے قریب خود کش دھماکے میں خواتین سمیت 28 افراد شہید اور 75 زخمی ہوئے، جنوری 2013 سے 30 جون تک ،20، خود کش اور دھماکوں میں فوجی جوانوں افسران بھی شامل ہیں اور عام شہری خواتین اور بچوں سمیت 552،افراد شہید ہوئے ،جبکہ 1063 فورسز اہلکاروں اور خوتین سمیت زخمی ہوئے ،اِن میں کتنے ہونگے جوجاں بحق ہوئے اور ہمیشہ کے لئے معذور ہوئے۔

Nanvvga Parbat

Nanvvga Parbat

لاریب فورسز کی کاروائی میں دہشت گرد بھی مارے جانے کی خبریں آتی ہیں جیسے کرم ایجنسی میں لوئر کرم میں فوجی کاروائی میں 75 دہشت گرد بھی مارے گئے ،نانگا پربت پر ایک گائیڈ سمیت دس غیر ملکی سیاح بے دردی سے قتل کئے گئے جو محض سیر تفریح کے لئے آئے تھے جن کا تو کسی سیاست یا حکومت،کسی ایسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ قتل کے سزاوار تھے،ہر حملہ کی زمہ داری بلا جھجک طالبان، لشکر جھنگوی نے قبول کی۔

مبادا کسی کو شک نے رہے پھر بھی سیاسی عمائدین،میڈیا اور حکومتی زرائع یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ یہ گہری سازش یا بیرونی سازش ہے مگر ہر کاروائی اپنے پیچھے لاتعداد سوال چھوڑ جاتی ہے جن کا آج تک کسی نے یا کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا اہم سوال تو یہ ہے کہ سازشی کون اور کیا مقاصد ،اِن دہشت گرد تنظیموں سے کیا تعلق،ہر کوئی انہیں دہشت گرد کہتا ہے مگر یہ ہر گز دہشت گرد نہیں وہ گوریلا جنگ سے پاکستان کو فتح کرنے کے اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

اور ہماری حکومت اور عسکری قیادت مصلحت کے خول میں سمٹتی چلی جارہی ہے، ان کو سرمایا کون فراہم کرتا ہے ،اور کن زریعوں سے ا ُن تک پہنچتا ہے ایک بارود سے بھری گاڑی جسکی قیمت پچیس تیس لاکھ سے کم نہیں ہوتی تباہ کر دی جاتی ہے ،پھرسیٹلائٹ فون پر اپنوں سے بلکہ دنیا بھر سے فوری رابطہ ،اور ہر قسم کا جدید اسلحہ کہاں سے اور کن زریعوں سے پہنچتا ہے کہ فاٹا میں اسلحہ کی کوئی فیکٹری نہیں اور نہ ہی یہ وہاں اگتا ہے، اہم سوال یہ بھی کہ آئی ایس آئی اور دیگر ایجنسیاں ہمیشہ بے خبر کیوں ؟

یہ اطلاع تو دی جاتی ہے کہ دہشت گرد شہر میں داخل ہو چکے ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ کس طرح اور کن راستوں سے شہر میں داخل ہوئے اور اُنہیں داخل ہونے سے پہلے ہی کیوں نہیں روکا گیا، مسلسل پے در پے ہونے والے پر تشدد خونی واقعات اور شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں اب اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ قومی قیادت کو دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر بارے اپنی پالیسی بارے میںغور کرے اور نظر ثانی کرے، آخر کب تک ان حقائق سے منہ چھپاتے رہیں گے اور اپنے ہی نہتے معصوم عوام کو مرواتے رہیں گے۔

Terrorists

Terrorists

کچھ لوگ اب بھی ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے اور مذاکرات کی باتیں کرتے مگر سوال ہے کہ انہیں دہشت گرد بھی کہا جائے اور مذاکرات بھی مگر مذاکرات کن سے اور کس حیثیت سے ہونگے جبکہ 50 ہزار سے زائد معصوم شہریوں کے خون سے اُن کے ہاتھ رنگین ہیں کیا اُن کا خون معاف کر دیا جائے گا مگر کیسے ؟ مذاکرات تو ہر دو فریق برابری کی سطح پر کرتے ہیں عام طور پر کچھ لو اور کچھ دو کا اصول کار فرما ہوتا ہے ان میں کیا سودے بازی ہوگی، تب مذاکرات کے وقت جنہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے کی حیثیت کیا ہوگی ؟

ماضی کے دھندلکوں میں کچھ نظر نہیں آتا اِس لئے آج کی دنیا کے زمینی حقائق کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کریں جو لوگ پاکستان کے وجود اور اس کے نظام اور آئنی حکمرانی اور آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے اِن سے مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ،پاکستانی رٹ قائم کرنے کے لئے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کے علاوہ کوئی راستہ اب باقی نہیں بچا، اگر یہ نہیں ہو سکتا تو ہر روز عوام کو مروانے کی بجائے خاموشی سے ملک ہی ان کے حوالے کر دیا جائے۔

تحریر: بدرسرحدی