کسی بھی معاشرے کے لوگ اس معاشرے میں قائم عدل کے نظام سے پہچانے جاتے ہیں ۔ان کے رہن سہن میں عدل اور انصاف تب ہی آتا ہے جب وہاں کا نظام انھیں اس چیز کا پابند کرتا ہے اور انکو انکے بنیادی حقوق انکی دہلیز پر دیے جاتے ہیں اور اسکے بعد ان سے اپنی حدود سے تجاوز کرنے پر باز پرس بھی کی جاتی ہے۔ حضرت علی نے کیا خوبصورت بات کہی تھی کہ کفر پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ہمارے معاشرے کے مسائل پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو سب سے بڑا مسئلہ یہی نظر آئیگا کہ لوگوں کا نظام عدل پہ بھروسہ ہی نہیں ہے۔
یہاں طاقت ور کے لیئے اور قانون ہے اور اور کمزور کے لیے دوسرا قانون ،طاقت ور اس قانون کی کمزوریوں سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے اور کمزور بیچارہ پولیس اور عدالت کا نام سن کر ہی اپنے ہاتھ پاؤں چھوڑ دیتا ہے۔ طاقت ور اپنی مرضی کے لوگ اسمبلیوں میں بھیج کر اپنی مرضی سے قانون سازی کرواتا ہے اور کمزور اسکو اپنانے پر مجبور ہوتا ہے اگر کبھی غلطی سے کوئی طاقت ور اس قانون کے شکنجے میں آجائے تو اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیا جاتا ہے جبکہ کمزور ساری زندگی جیلوں میں پڑا سڑتا رہتا ہے۔
جو کچھ اسکے پاس ہوتا ہے یا تو پولیس والے اس سے ہتھیا لیتے ہیں یا پھر عدالتوں میں وکیل اور اسکے کلرک اسکے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو انصاف کو لمبا کرنے کے لیئے اور آپکی اگلی تاریخ ڈالنے کا صرف 100 روپیہ لیتا ہے اور آپکو اگلی تاریخ ڈال دی جاتی ہے اب اگر میں اس طبقہ کا نام لوںگا تو شاید توہین عدالت ہو جائے اور میں بھی کسی انجانے کی طرح عدالتوں کے چکر لگاتا پھروں۔ ہمارانظام عدل جس قدر پیچیدہ ہے اتنا ہی وسائل ہونے کی صورت میں سیدھا سادہ ہے لوگ کہتے ہیں اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو مدعی کے ساتھ FIR سے پہلے ہی معاملات طے کر لیئے جائیں۔
اور پھر اگر FIR درج ہو جائے تو تھانے میں ہی معاملات حل کر لیئے جائیں عدالتوں کے چکر نہ لگانے پڑیں وگرنہ وہاں جا کر جو کچھ ایک عام اور شریف آدمی کے ساتھ ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کبھی وکلاء کی ہڑتال اور کبھی منصفوں کی ہڑتال ،کبھی عدالتی چھٹیاں اور کبھی پولیس کی طرف سے چالان نہ پیش کیئے جانے کی شکایت۔ معذرت کے ساتھ میں یہ ساری باتیں اس لیئے لکھ رہا ہوں کہ بہت امید کے ساتھ میں نے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں نے بغیر کسی لالچ کے عدلیہ بحالی تحریک میں ڈنڈے کھائے اور سپنے دیکھے تھے کہ ہمارے ہاں بھی ایک ایسا نظام آنے والا ہے۔
جس میں کمزور اور طاقت ور کے لیئے ایک ہی قانون ہوگا مگر معذرت کے ساتھ ہمارے خواب پورے نہیں ہوئے اور اب تو وہ ایک دیوانے کا خواب لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیئے لکھ رہا ہوں کہ میرے بھائی کو ایک ایسے مقدمے میں پھنسایا گیا جسکا اس سے دور تک بھی واسطہ نہیں تھا اور آج اس واقعے کو 14 دن ہو چکے ہیں اور آج جا کر ضمانت ہوئی ہے ضمانت کا وقت بھی ایسا تھا کہ آج میرا بھائی رہا نہیں ہو سکتا اس کے لیئے اسے کل رہائی ملے گی۔ قطع نظر اس بات کے کہ میرا بھائی گناہ گار ہے یا نہیں مگر ایک بات میں اپنے معزز قانون کی تشریح کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کی کیا اس ملک میں کوئی ایساسادہ نظام بھی موجود ہے۔
Pakistan
کہ اگر کوئی بندہ کسی کے اوپر جھوٹی تہمت لگائے اور بعد میں وہ بندہ بری بھی ہو جائے تو تہمت لگانے والے کو اسکا ہرجانہ دیا جائے برائے مہربانی مجھے سادہ سا کوئی طریقہ بتائیے گا اتنا سادہ جتناپوری دنیا میں قائم ہے میں آپکو اسکی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ایک پاکستانی جو کہ اپنے روزگار کے سلسلے میں سپین میں موجود تھا اور وہاں پر ریڑھی لگاتا تھا یہ ان دنو ں کی بات ہے جن دنوں میں پاکستان میں زلزلہ آیا تھا تو وہاں پر موجود سپینش آدمی نے اس بندے کو یہ کہا کہ یہ تم لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے۔
بات تو خیر اس نے سچ ہی کہی تھی مگر ہمارے پاکستا نی کو وطن سے پیا ر اتنا تھا کہ اس سے وہ برداشت نہ ہوا اور اس نے اس سپینش آدمی سے جھگڑا کرنا شروع دیا اس ہاتھا پائی میں سپینش آدمی کا بازو ٹوٹ گیا اور وہ آدمی عدالت میں اس مسئلے کو لے کر چلا گیا عدالت نے 17 دنوں میں اس کیس کا فیصلہ سنا دیا کہ تم نے چونکہ اس شخص کی قومیت پہ بات کی ہے اس وجہ سے یہ برداشت نہ کر سکا عدالت نے اسکو حکم دیا کہ تم نے اس مزدور آدمی کی مزدوری کا وقت ضائع کیا ہے لہذا اسکی اوسطا مزدوری بھی اسے اسی شخص سے دلوائی اسکو کہتے ہیں انصاف۔
مجھے آپ ہماری تاریخ میں سے کوئی ایک ایسی مثال بتا دیں جو کہ ہم نے اپنے لوگوں کو اس طرح کا انصاف فراہم کرنے میں کی ہو۔ جناب والا سوات کے لوگوں نے ہمارے نظام عدل سے بددل ہو کر طالبان کو خوش آمدید کہا یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ انصاف نہیں بلکہ اپنے لیئے ایک ایسی بلا کو اپنے پلے ڈال بیٹھے جو کہ انکی ثقافت کو ہی ختم کرنے پر تل بیٹھی مگر یہ ہمارے نظام عدل کی ہی غلطی تھی جس نے سوات کے لوگوں کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کیا۔ اس سے صرف سوات کے لوگوں کا ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ ہمارے پورے ملک میں شدت پسندی بڑھی اور کس حد تک بڑھی یہ مجھے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
جناب والا اگر بندوقوں والے آگئے تو اس سے صرف عوام کا نقصان نہیں ہوگا بلکہ آپکی یہ عدالتیں بھی نہیں رہیں گی ۔اور نہ ہی پولیس کی یہ غنڈہ گردی رہے گی جو کہ ہر شریف آدمی کے لیئے وبال جان ہے اسکی زبان کی اگر بات کی جائے تو کوئی مثال دینے کی ضرورت نہیں ایک آدمی جس نے اپنی ساری زندگی میں گالی نہ سنی ہو وہ تھانے میں جا کر ضرور گالی سنے گا اور اگر ذرا سا احتجاج کریگا تو فضول قسم کے قانونی معاملات میں اسکو الجھا دیا جائے گا کہ وہ اپنی اس بے عزتی کا کسی سے ذکر تک بھی نہیں کریگا اور چپ چاپ اس بے عزتی کو سہہ جائیگا۔
Mr. Chief Justice Sir
جس سے اسکی ذہنی حالت کیا ہو گی یہ بیان کرنے سے سمجھ میں نہیں آئے گی بلکہ اس صورتحال سے گزرنے سے ہی سمجھ میں آئیگی ۔ میں ایک بات نہایت یقین سے کہ سکتا ہوں کہ ہمیں کوئی بیرونی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی یہ قوم بڑی سخت جان قوم ہے اسکو اگر کوئی چیز نقصان پہنچائے گی تو وہ اسکو آپس میں لڑنا اور انصاف کی عدم موجودگی ہی پہنچائے گی۔
محترم چیف جسٹس صاحب پورے ملک میں عدالتی ایمرجنسی لگائیں اور شام کو بھی عدالتیں لگائیں پولیس کو غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنے کا پابند بنایا جائے اور اہل افسروں کو تفتیش پہ لگایا جائے تاکہ عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو چاہے وہ ملزم ہو یا مدعی۔ لوگوں کو آپ سے بڑی امیدیں ہیں خدارا انکی امیدوں پر پانی نہ پھیریں ورنہ حساب تو ہر شخص نے کبھی نہ کبھی ضرور دیناہے۔ امید کرتا ہوں کہ میری آواز نقار خانے میں موجود طوطی کی آواز ثابت نہیں ہوگی۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ھو۔( آمین )