پچھلے کئی سالوں سے کراچی کے حالات بگڑتے ہی چلے جا رہے ہے کوئی ایسا دن نہیں جب کراچی کی سڑکوں سے بوری بند لاشیں نہ ملی ہوں۔ روزانہ کئی کئی افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے، اور جو فسادات میں زخمی ہو جاتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ کراچی کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور پاکستانی عوام کی اکثریت اس حقیقت کو جانتی ہے کہ کراچی کے حالات خراب کرنے کا اصلی ذمہ دار کون ہے؟ کس کے اشارے پر قتل و غارت ہو رہی ہے اور کون بھتہ خوری میں ملوث ہے۔
کراچی میں خون ریزی بلا شبہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اس کے پیچھے بہت بڑی سیاست کھیلی جا رہی ہے ۔عام عوام اس کی بھینڈ ایک طویل عرصہ سے چڑھ رہی ہے ۔جب کراچی کے ایک علاقے میں فائرنگ ہوتی ہے تو سوچنے کی بات ہے کیسے اتنی جلدی پورے شہر میں افرا تفری مچ جاتی ہے؟ اس سے اب واضح ہو گیا ہے کہ ٹارگٹ کلرز نے گروپ بنا رکھے ہیں جو کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے آقائوں کے اشاروں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
اگر ان آقائوں کے متعلق کوئی بولنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھی موت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے اسی لیے آج تک پاکستانی میڈیا نے یہ حقائق عوام کے سامنے واضح لفظوں میں بیان نہیں کیے کیونکہ ہر کسی کو اپنا کاروبار اور اپنی زندگی پیاری ہے پھر یہ بیچارہ پاکستانی میڈیا کیسے اصل حقائق پاکستانی عوام کو بتائے کہ آخر وجہ کیا ہے کیوں کراچی کے حالات خراب کیئے جاتے ہیں اور کون لوگ وہاں کے تاجروں سے بھتہ لینے میں ملوث ہیں۔
اب اگر کراچی میں تاجروں سے بھتا وصولی کی بات کی جائے تو ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پانچ برس میں کراچی کے 500 تاجروں کو اغوا کیا گیا اوران مغویوں نے بھتہ مافیا کو 4ارب روپے دے کر رہائی حاصل کی جبکہ 50 تاجروں کی طرف سے بھتہ نہ دینے پر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تاجر اتحاد کے انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق شہر کے تاجروں کو بھتے کی عدم ادائیگی پر تاوان وصولی اور فیصلوں کے لیے بھی اغواہ کیا جاتا رہا ہے۔ تاجر اتحاد ذرائع کے مطابق بعض دہشت گرد گروپس بھتے کا ریٹ بڑ ھانے یا کسی علاقے میں دیگر بھتہ خور جماعتوں کے مقابلے میں اپنی دہشت پھیلانے کے لیے تاجروں کو قتل کر دیتے ہیں۔
Karachi Operation
اسپیشلائزڈ انوسٹی گیشن یونٹ (SIU) کے ماتحت انسداد بھتہ خوری سیل (Anti Extortion Cell) کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق صرف گزشتہ برس اس سیل میں 350 بھتہ طلبی کی شکایات رجسٹرد کروائی گئیں جس پر کاروائی کرتے ہوئے 82 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا۔ 90 کی دھائی میں کراچی میں آپریشن کیا گیا تو سڑکوں اور گلیوں میں لگے ہوئے آہنی دروازے ہٹادیے گئے مگر شاہراہِ فیصل کے دائیں طرف آباد علاقوں میں ایک اقلیتی گروہ کے مسلح جھتوں کو ان علاقوں میں رہنے کی اجازت دیدی گئی۔ اس لڑائی میں ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن جاں بحق ہوئے۔ یوں یہ علاقے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لیے نوگوایریاز بن گئے۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد سندھ میں ڈاکٹر عشرت العباد گورنر اور علی محمد مہر وزیر اعلیٰ بنے تو یہ علاقے خالی کرائے گئے مگر نئی صدی کے ساتھ ہی شہر میں بدامنی بڑھتی چلی گئی۔ شہر میں موبائل اور پرس چھیننا عام سی بات بن گئی۔
بینکوں میں ڈکیتی کی شرح میں بھی حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی بڑھ گئی، گو کہ اس ٹارگٹ کلنگ کی نوعیت تبدیل ہوتی رہی۔ فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کو قتل کیا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی کراچی میں دہشت گردی کی وارداتیں بھی بڑھ گئیں۔ مذہبی انتہاپسندوں نے امریکی قونصل خانے کو نشانہ بنایا۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے قافلے کو شاہراہ فیصل پر بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ کراچی کے کورکمانڈر کی گاڑی پر کلفٹن کے پل پر تربیت یافتہ افراد نے حملہ کیا۔ اس حملے میں کور کمانڈر تو بچ گئے مگر متعدد فوجی شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ کلفٹن پل پر سے گزرتے ہوئے پولیس افسر اور عام شہری بھی اس حملے میں جاں بحق ہوگئے۔
انگریزی زبان میں شائع ہونے والے اخبار کے مدیر کا کہنا ہے کہ کراچی کو جرائم سے پا ک کرنے میں Political Will کی کمی رہی ہے۔ اگر منتخب حکومتیں واقعی شہر کو جرائم سے خاتمے کے لیے سیاسی ارادے کا اظہار کریں ،کسی امتیاز کے بغیر شہر کے تمام علاقوں میں نو گو ایریاز کا خاتمہ کیا جائے۔ مجرموں کی کمیں گاہیں بھی ختم کردی جائیں، پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک فعال ہو اور ملزمان کو عدالتیں قرار واقعی سزائیں دیں تو پھر کسی بھی گروہ کو حفاظت کے لیے عارضی سہاروں کی ضرورت نہ رہے۔
کراچی کے ساتھ ساتھ آج کل کوئٹہ کے حالات بھی کافی خراب ہیں چند دن پہلے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر ہونے والا کوئی پہلا حملہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے مگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی، حکومت کو چاہیے کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کو ٹھوس اقدامات کر کے روکے تا کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال برقرار رہے۔