١٩٩٧ کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف کو دو تہائی اکثریت نصیب ہوئی تھی اگر چہ اسے فرشتوں کی کارستانی اور اسٹیبلشمنٹ کی جادو گری سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن سچ یہی ہے کہ ان فکسڈ انتخا بات کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف ایک بڑے ہی مضبوط حکمران کی صورت میں ابھرے تھے۔ ان کا مینڈیٹ ذولفقار علی بھٹو کے مینڈیٹ سے بھی ہیوی تھا یہ الگ بات کہ ذ ولفقار علی بھٹو جیسے لیڈر صدیوں میں کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں اور اپنی فکر سے ساری معاشرتی قدروں کو بدل کر رکھ دیتے ہیں جبکہ میاں محمد نوازشریف اپنی کارو باری دنیا سے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں۔
اور اپنی کارو باری دنیا کو وسعت دینے کے علاوہ ان کے پیشِ نظر کوئی بڑا ھدف نہیں۔ اپنے اس ہیوی مینڈیٹ کے زعم میں میاں برادران سے سنگین نوعیت کی غلطیاں ہوئیں۔ غیر ملکی قرضوں سے جان چھڑانے کیلئے فارن کرنسی اکا ئونٹ کی ضبطی، بیو و کریسی سے ٹکر، ملکی فوج کی تحقیر، عدلیہ اور اپوزیشن سے ان کے ٹکرائو نے ان کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا جس سے ان کی حکومت ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کو فوجی شب خون کے ذریعے ختم کر دی گئی۔ یہ وہی دور ہے جس میں مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا اور سید سجاد حسین شاہ کو چیمبر میں چھپ کر اپنی جان بچانی پڑی تھی۔
آرمی چیف آصف نواز جننجوعہ سے جو مخاصمت شروع ہو ئی تھی اسی کی اکڑفون، غصے، انا اور نفرت میں میاں محمد نواز شریف نے جہانگیر کرامت کو انتہائی بھونڈے انداز میں فوج سے برخاست کر کے جنرل پرویز مشرف کو نیا آرمی چیف مقرر کیاجس نے ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کو میاں محمد نواز شریف کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور میاں محمد نواز شریف کو کئی مہینوں تک جیلوں میں گھسیٹنے کے بعد دس سالہ معاہدے کے بعد سعودی عرب جلا وطن کر دیاتھا۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میاں برادران کو کئی سالوں تک نہ چاہتے ہوئے بھی سعودی عرب میں جلا وطن رہنا پڑا کیونکہ معاہدے کا تقاضہ یہی تھا کہ دس سالوں تک وطن واپسی کا نام نہ لیا جائے۔
میاں برادران نے ایک دو دفعہ سنجیدہ کوششیں بھی کیں لیکن بار آور نہ ہو سکیں کیونکہ جنرل پرویز مشرف میاں برادران کی وطن واپسی کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا تھا۔ اس زمانے میں امریکہ بھی جنرل پرویز مشرف کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا کیونکہ امریکہ جنرل پرویز مشرف سے اپنے مفادات کا حصول چاہتا تھا۔ امریکہ کو یقین تھا کہ جتنی تابعداری کا مظاہرہ جنرل پرویز مشرف کر رہا ہے وہ پاکستان کی سیاسی قیادت سے ممکن نہیں ہے اس لئے وہ میاں برادران اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی میں دلچسپی ظا ہر نہیں کر رہا تھا۔
Chief Justice Aftka Mohammad Chaudhry
اس کا کام چل رہا تھا لہذا اسے دردِ ِ سری کی کوئی ضرورت نہیں تھی،مارچ ٢٠٠٧ کو چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی معزولی کے بعد جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑنے لگی تو اس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے پی پی پی کے ساتھ این آر او کا معاہدہ کر لیا جس پر میاں برادران نے بڑا واویلہ مچایا لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ میاں برادان کا استدلال تھا محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کا معاہدہ کر کے میثا قِ جمہوریت سے بے وفائی کی ہے۔
میاں برادران اس معاہدے کے بعد بڑے اپ سیٹ تھے کیونکہ اس سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی تو یقینی ہو گئی تھی لیکن میاں برادران کی واپسی کا کوئی ر استہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بہر حال سعودی حکومت نے میاں برادران کی واپسی کو یقینی بنایا جو جنرل پرویز مشرف کی سیاسی موت تھی جس کا اسے صحیح ادراک نہ ہوسکا۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ چودہ سالوں کے بعد ایک دفعہ پھر میاں محمد نواز شریف وزیرِ اعظم پاکستا ن ہیں اور ان کے سامنے اسی طرح کی صورتِ حا ل ہے جیسی صورتِ حال ١٩٩٧ میں تھی۔
اس وقت بھی فوج کی برتری کو زیرِ دام لانے کی خواہش تھی اور وہ حواہش اب بھی اسی طرح جوان ہے۔وہ سارے لوگ جھنوں نے میاں برادران کو فوج کے خلاف چڑھائی کی ہلہ شیری دی تھی ان کا تو کچھ بھی نہیں بگڑا تھا کیونکہ جیسے ہی جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تھا وہ ایک ہی جست میں پار ٹی کو خیر باد کہہ کر جنرل مشرف کی گود میں بیٹھ گئے تھے اور میاں برادران کیلئے جلاوطنی اور جیلوں کی سختیاں رہ گئی تھیں۔ وہی عناصر ایک دفعہ پھر سر گرم ہو گئے ہیں اور اسی طرح کا ماحول تخلیق کرنا چاہتے ہیں جس طرح کا ماحول ماضی میں تخلیق کیا تھا۔
آج کل یہ ٹولہ ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکا ہے اور میاں برادران کو اپنی وفا داریوں کا یقین دلا رہا ہے ویسا ہی یقین جیسے انھوں نے جنرل ہرویز مشرف کو دلایا تھا۔یہ لوگ کسی کے بھی دوست، سجن اور یار نہیں ہوتے انھیں صرف اپنے اقتدار سے دلچسپی ہو تی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ محبت کی قسمیں کھانے والے اب جنرل پرویز مشرف کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ اس کا کا نام سن کر طیش میں آ جاتے ہیں کیونکہ اب جنرل پرویز مشرف کے پاس انھیں خو ش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
Mian Brothers
اب ان کی ساری امیدیں میاں برادران کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ میاں برادران کی اسی طرح خوشامد کرنے میں جٹے ہوئے ہیں جس طرح وہ جنرل پرویز مشرف کی خو شامد کیا کرتے تھے اور اسے سو دفعہ وردی میں صدر منتخب کرنے کا اعلان کیا کرتے تھے۔ میں نے اس مخصوص سیاسی ٹولے سے زیادہ طوطا چشمی کا مظا ہرہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ راتوں رات وفاداریاں بدلنے کی اس روائت نے پاکستان کی ساری اجلی اقدار کا خون کر رکھا ہے اور پھر ان عناصر کو اپنی نوجوان نسل سے یہ امید بھی ہوتی ہے کہ وہ ذاتی مفادات سے بلند تر ہو۔
کر اقدار کا علم بلند کریگی حالانکہ اس طرح کی انتہائی پست حرکات کے بعد نئی نسل سے اعلی کردار کے اظہار کی خواہش کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ پھر بھی اس طرح کی امیدوں سے اپنے دل کو آباد رکھتے ہیں کیونکہ سیاست میں امید کا دامن نہیں چھوڑا جاتا۔ جنرل پرویز مشرف ٢٣ مارچ ٢٠١٣ کو موجودہ انتخا با ت میں شرکت کیلئے پاکستان تشریف لائے تو سر منڈا تے ہی اولے پڑے کے مصداق انھیں منہ زور عدلیہ سے واسطہ پڑا اور عدلیہ نے ان پر تا حیات الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی لہذا ان کی مسلم لیگ اڑنے سے پہلے ہی لڑھک گئی۔
آج کل جنرل پرویز مشرف چک شہزاد میں واقع اپنے محل میں قید ہیں اور ان پر غداری کے مقدمے کی تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں۔ قومی اسمبلی کے پہلے میں جسطرح کی تقا ریر کی گئی تھیں اس نے اس خیال کو تقویت بخشی کہ کچھ عناصر ایک دفعہ پھر میاں محمد نواز شریف کو تصادم کی اسی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں جس نے ان کا بیڑہ غرق کیا تھا اور انھیں سالہا سال جلا وطنی کا زہر پینا پڑا تھا۔ میاں محمد نواز شریف ایک دفعہ پھر انہی عناصر کے نر غے میں آچکے ہیں اور انھوں نے اسمبلی کے فلور پر اعلان کر دیا ہے۔
کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا یا جائیگا کیونکہ انھوں نے ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ور ٣ نومبر ٢٠٠٧ کو دو دفعہ آئین شکنی کی ہے جس کا انھیں خمیا زہ بھگتنا پڑیگا ۔ان کے خلاف کارگل اپریشن پر بھی میاں محمد نواز شریف کو تحفظات ہیں اور وہ ا نھیں اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لہذا اس سمت میں بھی کاروائی کو خا اج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملکی حالات اس بات کے متقاضی نہیں تھے کہ اس طرح کی کاروائی شروع کی جاتی لیکن انسان کی انا پرستی اسے کسی ایسی راہ پر ضرور ڈال دیتی ہے جس سے اسکی ہلا کت یقینی ہوتی ہے اور میاں محمد نواز شریف اسی راہ پر چل نکلے ہیں۔
اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ جنرل پرویز مشرف فوج کے سابق آرمی چیف ہیں اور سابق صدرِ پاکستان بھی ہیں لہذا ان کے خلاف غداری کی کاروائی کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔فوج اتنی آسانی سے اپنے سابق آرمی چیف کی تذلیل برداشت نہیں کریگی۔فوج میں اب بھی ان کے چاہنے والے بہت سے جرنیل ہیں جو ساری بازی پلٹ سکتے ہیں لہذا مہم جو عناصر کو صبر و تحمل سے کام لینا ہو گا۔ خو اب د یکھنا اور خواہشات پالنا اچھی بات ہے۔
اور اس پر کوئی پابندی بھی نہیں ہو تی لیکن انسان کو سوچ سمجھ کر خوابوں کی دنیا آباد کرنی چائیے۔جو خواب زندگی بھر کا روگ بن جائیں ان سے دور رہنا دانشمندی ہو تی ہے اور میاں برادران کو اسی دانشمندی کا ثبوت دینا ہو گا۔ ہم سب کو علم ہے پاکستانی سیاست میں فوج کی حیثیت مسلمہ ہے اور جس نے فوج کو جھکانے کی کوشش کی اس کا انجام بہت برا ہوا۔ یہ بات آصف علی زرداری نے اپنے پلے باندھ لی تھی تبھی تو اس نے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کر لی تھی جاری ہے۔