3جولائی کی شب رات دس گیارہ بجے کے درمیان ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلی کہ مصری فوج نے عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے اور اخوان مسلمین کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کر کے نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا۔ یہ بریکنگ نیوز ضرور تھی مگر اتنی بھی نہیں کیونکہ مصر میں جو چند روز سے ہنگامے ہورہے تھے اور افواج کی طرف سے جو اشارے مل رہے تھے اس سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ قریب ہی ہے۔ یہ وہی منظر تھا جو اکتوبر 1999 میں پاکستان میں پیش آیا۔ جس طرح مصر کی سیاسی قیادت کو گرفتار کر کے نامعلوم جگہ بھیج دیا گیا اسی طرح پاکستان کی سیاسی قیادت کو گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا تھا۔ مصر اور پاکستان میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو دونوں مسلمان ملک ہیں۔ مصر میں بھی زیادہ عرصہ آمریت کی حکومت رہی اور اسی طرح پاکستان میں بھی آمریت کا دور دورہ رہا۔
اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا کہ پاکستان میں کبھی اسلام پسند لوگوں کے خلاف آمریت نے شب خون نہیں مارا کیونکہ اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی اسلام پسند لوگوں کو حکومت ملی ہی نہیں۔ پاکستان میں جب بھی آمریت نے قدم اٹھا یا وہ لبرل سیاستدانوں کے خلاف اٹھا یا ہے۔ مصر اور پاکستان میں اس کے علاوہ ایک چیز اور بھی مماثلت رکھتی ہے جس کی وجہ سے یہ ملک کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے۔ وہ مماثلت ان دونوں ممالک میں امریکہ کا اثر و رسوخ ہے۔ دونوں ملکوں کو امریکہ ڈکٹیٹ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے مصرکی اور نہ ہی پاکستان کی معشیت نے کبھی ترقی کی ہے۔امریکہ کے پاس آئی ایم ایف ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے مصرا ور پاکستان بچ نہ پائے بلکہ دونوں ممالک اس کی زد میں رہتے ہیں۔
India
ان قرضوں کی وجہ سے امریکہ ان ممالک میں اپنی من مانیاں کراتا ہے۔ مجھے انتہائی افسوس سے یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ یہ حالات و واقعات صرف مسلم ممالک میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ کیا اپنے ضمیر کا سودا کرنے کے لیے ہم مسلمان ہی رہ گئے ہیں؟ کیا بکنے کا لیبل مسلمانوں کے مقدرپر لگا ہوا ہے؟ کبھی امریکہ، برطانیہ یا انڈیا میں دیکھا ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں پر کسی جرنیل نے شب خون مارا ہو؟ آج اگر ظلم کی چکی میں کوئی پس رہا ہے تو وہ بھی مسلمان ہے اور اگر کسی بھی ملک میں دہشت گردی ہورہی ہے تو اس کا بھی ذمہ دار مسلمان کوہی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ہمارا دین اسلام ہے اور اسلام میں قتل کرنے والا جہنمی ہے تو پھر مسلمان کیسے اپنے مسلمان بھائی کو مار سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں مسلمان کا روپ دھار کر غیر مسلم داخل ہو گئے ہیں جو بظاہر حرکات و سکنات سے تو تمام کام مسلمانوں کی طرح کرتے مگر ان کا ایجنڈا اور ترجیحات غیر مسلموں والی ہوتی ہیں۔
مصر میں اخوان مسلمین نے کافی تگ و دو کے بعد 2012 میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہون نے اسلام کی خاطر قربانیاں دی مگر اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ جس کا ثمر ان کو مصر میں صدر مرسی کے اقتدار کی صورت میں ملا۔ صدر مرسی ایک نہایت شریف اور اسلام کے داعی انسان ہیں۔ صدر مرسی نے جہاں مصر کے آئین کو اسلامی انداز میں ڈھالاوہیں اسرائیل کے خلاف اپنی پالیسی بھی بدل ڈالی۔ پہلی بار مصر کی سرحد غریب اور لاچار فلسطینیوں کے کھول دی گئی جس کی وجہ سے فلسطینیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس طرح ایک نیا مصر معرض وجود میں آ رہا تھا شاید یہی وہ چیز تھی جو امریکہ اور اسرائیل کو ناپسند تھی۔ امریکہ تو مسلمانوں کو غلامی میں رکھ کر خوش ہے اس کوکس طرح قبول تھا کہ فلسطین اسرائیل کے چُنگل سے آزاد ہو۔ صدر مرسی کی اخوان مسلمین کوئی لبرل جماعت نہیں جو امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دے بلکہ ایک اسلامی جماعت ہے۔
جس وقت صدر مرسی نے اقتدار سنبھالا تمام مسلم ممالک نے انہیں خوش آمدید کہا مگر دکھ ہوا تھاتو وہ صرف اسلام مخالف قوتوں کو۔ جس وقت صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اس وقت تحریر سکوائر پر ہزاروں لوگ موجود تھے۔ اور یہ وہ لوگ تھے جو کہنے کو مسلمان ہیں مگر ان کے خیالات اسلام کے منافی ہیں۔ اسی تحریر سکوائر پر آج سے ایک سال قبل لاکھوں لوگوں نے جمع ہو کر شکرانے کے نوافل اداکیے تھے جس وقت محمد مرسی کو مصر کا صدر بنایا گیا تھا۔ یہ انداز امریکہ اور اسکے حلیفوں کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دی۔
اس دن سے امریکہ نے مصر میں حکومت مخالف آگ کو ہوا دینا شروع کر دی۔ خفیہ ہاتھ آہستہ آہستہ عوام کو اس اسلامی حکومت کے خلاف اکساتے رہے اور عوام کے ساتھ ساتھ فوج بھی ان کاحصہ بنتی چلی گئی۔ آخر کار 3 جولائی کو مصر کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ملک کے چیف جسٹس کو عبوری صدر بنا دیا گیا۔(بشکریہ پی ایل آئی)