لیجئے جناب آج آئی ایم ایف کے قرضے اتار نے کے لئے آئی ایم ایف ہی سے قرض اتارو ملک سنوار کے نام پر پی ایم ایل ن کی ہماری پچاس دن کی نومولود حکومت نے بھی وہی کچھ کر دیا ہے جس کی یہ ہمیشہ سے مخالف رہی ہے، یعنی یہ کہ جب یہ زرداری حکومت میں اپوزیش میں تھی تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک والوںسے قرضے لینے کو اپنی حکومت کے لئے خطرہ قرار دیتی تھی اور کہتی پھرتی تھی کہ جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم چنددنوں ہی میں ملک کو اِس کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر اِسے اِس کے پیروں پر کھڑا کر دیں گے۔
ہم ملک کی تقدیر قرضوں سے نہیںاپنے دستیاب وسائل کے استعمال سے بد ل دیں گے، اِس حکومت نے اور ایسے بہت سے دعوے کئے تھے جنہیں سب جانتے ہیں، جی یہی نواز شریف اور اِن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن تھی جو زرداری حکومت کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پر ہر بار ایسے تنقید کا نشانہ بناتے رہی ہے، جیسے زرداری حکومت کا اِن اداروں سے قرضہ لینا کوئی مجبوری نہیں تھی، اوریہ سوال اٹھاتی تھی کہ جب قرضوں کی ضرورت نہیں ہے توکیوں زرداری حکومت اِن اداروں سے قرضہ لینے کو اپنی بقا اور ملکی سالمیت کی ضامن گردانتی ہے۔
مگر اب اِس حکومت کو کیا ہوگیاہے کہ آج نواز شریف کی نئی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینا اپنی عافیت جانی اور پھر وہی کچھ خود بھی کرڈالا ہے جس کی یہ سب سے بڑی مخالف ہوا کرتی تھی۔ جبکہ یہاں یہ امر قابلِ غورضرور ہے کہ آج ہمارے حکمران بڑے خوش ہیں کہ اِنہوںنے ادھار مانگنے والی اپنی ضد اوراصولوں پر سودے بازی نہیں کی ہے، اور اِنہوں نے قرض مانگنے پر کسی کے سامنے اپنا اور قوم کاسر نہ جھکا کر ملک کے وقار اور قوم کی عزت کی دھجیاں نہیں بکھیرنے دیں۔
اورآئی ایم ایف کی کسی دھونس اور دھمکی میں آئے بغیراِس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چند کٹھن مگرزہر یلے گھونٹ پینے جیسے نکا ت سرکاری اداروں کی نجکاری، یکساں ٹیکس نظام کا نفاذ، سبسڈیز کا بتدریج خاتمہ، ٹیکس مراعات کے ایس آر او ختم کرنا، اور بہت سے ایسے اقدامات و اعلانات کے ساتھ ساتھ اور ایک کامیاب مذاکرات کے بعد( بقول وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ملک و قوم کے بہتر مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے) اِس (آئی ایم ایف)سے 5.3 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کرا لیا ہے، اوریوں اِنہوں نے آئی ایم ایف کو مجبور کر دیا ہے۔
Debt
کہ یہ ہماری خواہشات و مرضی اورشرائط کے مطابق ہمیں قرضہ دے ،آج ہمارے حکمران جن کا پیٹ اِس قرضے سے بھی نہیں بھرے گا، یعنی اب ہمارے اِن نئے حکمرانوں کا اِن اداروں سے قرض لینے کا جو سلسلہ شروع ہوگیاہے، وہ شاید اس وقت تک جاری رہے جب تک یہ حکومت دو، چار، سال جاری رہے گی اور یوں ہمارے یہ حکمران آئندہ بھی قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر قرضے پے قرضہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لیتے رہیں گے اور سکھ کا سانس بھرنے لگیںگے حکمرانوں کو تو سکھ کا سانس نصیب ہوجائے گا۔
مگر یہ بھی امکان ہے کہ عوام کا سانس رک جائے گااور عوام مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر زندہ درگور ہوتے جائیں گے۔ آج ہمارے حکمرانوں نے جن ملکی حالات اور واقعات کے پیشِ نظر آئی ایم ایف سے قرضے اتارنے کے لئے قرض تو لے لیا ہے، مگراب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اِن حالات میں 3 فیصدشرح سود کے حساب سے لیا گیا یہ قرضہ کیسے اداکرتے ہیں جبکہ ایک طرف ملکی معیشت دگرگوں صورتِ حال سے دوچار ہے، ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے غیر تسلی بخش سطح تک پہنچ چکی ہے اوربم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور بدامنی کی وجہ سے سار املک غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے۔
ایسے میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ملک میں امن وامان کے قیام کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرے اور ایسے حالات پیداکرے کہ ملک میںزیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کا رجحان پروان چڑھے اور اندرونی ملک سے سرمایہ او ر صنعتیں بیرونِ ممالک منتقل نہ ہونے پائیں، تو ممکن ہے کہ اِس سے ملکی معیشت اور سرمایہ کاری پر مثبت اثرات مرتب ہوں اور حکومت آئی ایم ایف سے 5.3 ارب ڈالر کا لیا گیا قرض 3 فیصد شرح سود کے حساب سے ادا کرسکے ورنہ اِس کے لئے بہت مشکل ہوجائے گا۔ ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے۔
Pakistan
کہ ہمارا ملک پاکستان جو زراعت کے لحاظ سے دنیا کا ایک آئیڈل ملک ہے، یعنی پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے، پیاز اور گوشت کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا ملک ہے، دالوں کی پیداوار کے میدان میں اِس کا دنیا میں تیسرا نمبر آتا ہے، اور ایک اندازے کے مطابق آم اور مصالحے جات، خوبانی اور کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے میرے پاکستان کا دنیا میں بتدریج پانچواں اور چھٹا نمبر آتا ہے، اور اِس کے میدانی و ریگستانی اور پہاڑی علاقوں میں چھپی نایاب اور قیمتی معدنیات جیسے قدرتی وسائل میں بھی اِس کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔
اِن ساری خوبیوں اور بے شمار خصوصیات کے باوجود بھی وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہم اپنے وسائل سے اپنی ضروتوں کو پورا نہیں کرپا رہے ہیں، آج جنہیں پورا کرنے کے لئے پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف اور دیگر) اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے، اور پھر اِن قرضوں کو اتار کے لئے اِن ہی سے قرض لینا پڑ جاتا ہے، ایساکیوں ہے یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں پیدا ہو گیا ہے۔ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقینا شروع دنوں میں ہم سے میرامطلب یہ ہے کہ شاید ہمارے اکابرین سے کہیں نہ کہیں کوئی ایسی سنگین غلطی ضرور ہو گئی ہے۔
کہ آج جس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے،جبکہ اِس حوالے سے آج خاص و عام میں ایک خام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ ہم امریکی اور اِس کے بنائے ہوئے سود کی مدمیں قرضوں کا کاروبار کرنے والے مالیاتی اداروں کی چنگل میں تو اس ہی وقت پھنس چکے تھے جب ہمارے پہلے وزیر اعظم نوابزدہ لیاقت علی خان نے روس کے دورے کی دعوت کو ٹھراکر امریکا کا دورہ کرنا پسند کیا اور امریکا چلے گئے، تب ہی سے ہم امریکا کے اتنے قریب ہوئے کہ آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہماری خود انحصاری اور معیشت کاسارا دارومدار ہی امریکا اور آئی ایم ایف جیسے دیگر مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر ہے۔
یہ ہماری مجبوری اور ہم اِن کی ضرروت بن گئے ہیں،آج اِنہیں ہم سے جیساکام لینا ہوتا ہے،یہ اربوں ڈالرز کے قرضوں کے عوض ہم سے وہ تمام کام لے لیتے ہیں، اور ہم قرضوں کی لالچ میں وہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم نے انکار کیا تو یہ ہمیں قرضے لینے کی سفارش کریں گے اور نہ قرضے دیں گے، مگر ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطی اور غلطیوں کا ازالہ کریں اور آج ہم نے قرضے اتارنے کے نام پر آئی ایم ایف سے جو 5.3 ارب ڈالر کا قرضہ 3 فیصد شرح سودپر لے لیا ہے، اِسے ادا کر کے آئی ایم ایف سے جلداپنی جان چھڑائیں اور اپنے ملک کو حقیقی معنوں میں ایسا کردیں کہ یہ اپنے کمزور مگر اپنے اصل پیروں پر کھڑ اہو جائے، اور ہم پھر کبھی کسی کے آگے کشکول یا پیالیہ اٹھا کر بھیک نہ مانگیں۔