جرائم سے نمٹنے کیلئے سزائے موت ضروری : حکومت پاکستان

Death

Death

حکومت پاکستان نے جرائم کی روک تھام اور دن بدن بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لئے ملک میں سزائے موت پر عائد عارضی پابندی ختم کر دی ہے۔ انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں کے مطابق حکومت پاکستان نے سزائے موت پر عائد عارضی پابندی میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں 2008 سے سزائے موت کے خلاف پابندی عائد تھی اور گزشتہ ماہ تیس تاریخ کو اس پابندی کی مدت ختم ہو چکی ہے۔

اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے پاکستانی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے بتایا کہ موجودہ حکومت اس پابندی میں توسیع کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ان کے بقول وزیر اعظم نواز شریف کی پالیسی کے تحت سزائے موت پانے والے تمام مجرمان کو پھانسی دے دی جائے گی سوائے ان کے جنہیں انسانی بنیادوں پر معاف کیا جا چکا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان کا موقف ہے۔

کہ ملک کے چند حصوں میں جرائم سے نمٹنے کے لئے یہ سزا ضروری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سزائے موت پر عائد پابندی میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے سے انسانی حقوق کی تنظیمیں کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے مطابق پاکستان کا شمار ان چند ایک ممالک میں ہوتا ہے جہاں یہ سزا برقرار ہے۔ اس تنظیم کے بیان کے مطابق یہ پیش رفت اس لئے بھی قابل فکر ہے کیونکہ پاکستان میں سزائے موت کے حقدار قرار دیے جانے والے قیدیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔

واضع رہے کہ سزائے موت پر عارضی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ صدر زرداری کی حکومت نے 2008 میں کیا تھا۔ اس بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جب تک ملک میں سزائے موت کا قانون موجود ہے اس وقت تک یہ امکان بھی ہے کہ بے گناہ افراد اس سزا کا نشانہ بنیں گے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں اس وقت قریب 400 مجرم سزائے موت کے منتظر ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان کی تعداد آٹھ ہزار ہے۔