کراچی (جیوڈیسک) کراچی محمد رفیق مانگٹ امریکی اخبار دی کرسچن سائنس مانیٹر لکھتا ہے کہ نواز شریف کے پاس بہترین موقع ہے کہ بھارت کے ساتھ آزاد تجارتی معاہد ہ کرے، بھارتی کانگریس کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے یہ معاہدہ ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن کا واحد طریقہ باہمی تجارت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان حائل رکاوٹوں کا ختم کرکے تجارت کا حجم 40 ارب ڈالر سالانہ کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لئے صرف تجارت ہیحلنہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک آزاد تجارتی معاہدہ اقتصادی ترقی اور علاقائی امن میں مدد دے گا۔ دونوں ممالک میں سیاسی فضا کبھی بھی بہتر نہیں رہی۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم نواز شریف کو ان لمحوں کو اپنی گرفت میں لینا چاہیے۔ نواز شریف کو کوئی کم چیلنجز کا سامنا نہیں۔
تباہی کے دہانے پر کھڑی معاشی صورت حال، بجلی بحران سے ہر طرف چھایا اندھیرہ،نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی اور اندرونی دہشت گردی کے خطرے جیسے مسائل سے نواز شریف کو سامنا ہے۔ اس کے باوجود نواز شریف کے پاس اہم اقتصادی اور سیاسی موقع ہے۔اس سال بھارت کو تجارتی لحاظ سے پسندیدہ ملک کا درجہ دے کر پاک بھارت تجارتی تعلقات کو معمول پر لانا طیہے لیکن نواز شریف کو اس سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہیے اور شمالی امریکا کے آزاد تجارتی معاہدے کی طرز پر پاک بھارت آزاد تجارتی معاہدہ کرنا چاہیے۔
پاک بھارت تعلقات میں دیرینہ دشمنی نے جنوبی ایشیا کو دنیا میں ہر لحاظ سے پیچھے چھوڑ بنا دیا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد دونوں ممالک چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پورے خطے کی مجموعی تجارت میں جنوبی ایشیا کا صرف5فی صد حصہ ہے۔سارک نے بھی اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔پاک بھارت سرحد1800میل پر محیط ہے۔لیکن تجارت صرف ایک راستے سے ہوتی ہے۔
کسٹم کے طریقہ کار میں طوالت، مشکل ویزے کا عمل اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹوں نے دونوں ملکوں میں تجارت کو مشکل بنا دیا ہے۔ان رکاوٹوں کے خاتمے سے باہمی تجارت 40 ارب ڈالر سالانہ تک ہو سکتی ہے۔ جب کہ موجودہ تجارتی حجم صرف3ارب ڈالر ہے۔آزاد تجارتی معاہدہ دونوں ممالک میں سرمایہ کاری اور سیاحت میں اضافے ،صارفین کے لئے کم قیمتیں اورکاروبار کے لئے زیادہ سے زیادہ آمدنی کا باعث بنے گا۔
امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کو پرامن رکھنے کا واحد راستہ دونوں ممالک کے مابین بہتر تجارتی تعلقات ہیں۔ نواز شریف ایک مضبوط مینڈیٹ لے کر آئے ہیں انہیں حکومت کے لئے کسی اتحادی کی بھی ضرورت نہیں نہ ان کا کوئی حریف ہے۔پنجاب میں بھی انہیں بھاری اکثریت ملی ہے جو سب سے زیادہ صنعتی اور معاشی طور پر خوشحال خطہ ہے۔لہذا نواز شریف یہ معاہدہ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔
نواز شریف کے مقابلے میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی طویل وزارت عظمی اتحادی جماعتوں کے اسکینڈلوں کی وجہ سے کمزور ہے۔ان کی جماعت آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے کی خواہاں ہے۔ بھارتی عوام داخلی سلامتی کے مسائل، کمزور اقتصادی ترقی ، اور راہول گاندھی کی کمزور کارکردگی سے مایوس ہیں۔
نواز شریف کی طرح من موہن سنگھ کے لئے آزاد تجارتی معاہدہ اقتصادی اور سیاسی فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان محفوظ تجارتی معاہدہ آسان نہیں ہو گا۔لیکن پہلے کی نسبت اب فضا بہتر ہے اور نواز شریف کو اس موقع سے فائدہ اٹھا نا چاہیے۔