ہم سب ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں، بلکہ ہم سب نے بچپن سے سن رکھا ہے اور یہ بات میرے ذہن نہا خانوں کے کسی گوشے میں گھرکر چکی ہے کہ پاکستان کے مسلمان سب سے زیادہ پریشان حال ہیں،اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کی خستہ حالی کے ذمہ دار حکومت کا دہرا رویہ ہے،پاکستان میں یہاں کے باسیوں کوہمیشہ دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ شرح تعلیم میں بھی یہ عوام سب سے کم اور سرکاری ملازمت میں بھی ان کا تناسب غیر تشفی بخش ہے، غریبی، بھوک مری کا شکار پاکستانی قوم آزادی کے بعد سے اب تک اپنے حالات کی بہتری اور تبدیلی کے لئے کوشاں ہیں مگر ان کی حالتِ زار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔
اب کل ہی کی بات کر لیں،آپ سب نے کراچی میں راشن کی تقسیم پر دو خواتین کی پیروں تلے کچلے جانے کی اور پھر ان کی ہلاکت کی خبریں سن لی ہونگی۔ آ ج مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ مردوں کو روزگار میسر نہیں اور خواتین اگر گھر سے مفت راشن کے لئے باہر نکلیں تو وہاں خواتین کا اژدھام ہوتاہے جس کی وجہ سے بے ربتگی ہوتی ہے اور پہلے میں کے چکر میں ایسے حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ خاتون گئیں تھیں راشن لینے مگر گھر میں نہ ہی راشن آیااور نہ ہی بچوں کا پیٹ بھرا جا سکا۔بلکہ خاتون کی میت گھر میں پہنچ گئی اور اس کے چاربچے لاوارث ہو گئے۔ خدا خیر کرے ہمارے ملک اور قوم کے حالات پر!یہ مہنگائی اور بے روزگاری کانتیجہ ہی توہے کہ جس کی وجہ سے اس قسم کے حادثات اکثر و بیشتر رونما ہوتے ہیں۔ ملک میںخوراک کی کمی کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس ملک میں کس قدر قلتِ خوراک ہے اور اس کی تمام تر وجہ بے روزگاری ہے۔اور بے روزگاری کا خاتمہ مشروط ہے امن و امان سے جوکہ ملک کے کسی بھی حصے میں نہیں ہے۔
کہیں زیادہ بے امن و امانی درپیش ہے تو کہیں کم۔ لہٰذا حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے اوّلین فرصت میں امن و امان کوبحال کریں۔ موٹر وے بعدمیں بھی بن سکتاہے مگر امن و امان کی اس ملک کو اشد ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے ملک کے تمام لوگ ہی پریشان ہیں۔
بلدیاتی نظام کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم رول اداکرتی ہے مگر دنیا میں ہمارا ملک وہ واحد ملک ہے جہاں آج تک سب بلدیاتی نظام پرمتفق ہی نہیں ہوئے تو بلدیاتی نظام کام کس طرح کر سکتے ہیں۔ کراچی کے میگا سٹی کو ہی دیکھ لیں ایک زمانہ تھاجب رات کو سڑکیں دھوئی جاتی تھیں آج یہ شہر کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ ہر جگہ بدبو دار کچرے کا انبار نظر آتاہے ،اور ہم 1979ء کے بلدیاتی نظام کو ہی رو رہے ہیں۔اس سے صاف ظاہرہے کہ حکمران عوام سے نہ کبھی مخلص تھے اور نہ ہیں۔
Pakistan
اگر ہوتے توکم ازکم وہ بلدیاتی نظام رائج کرتے جو عوام کی بھلائی کے لئے بنائے گئے تھے۔ جس سے عوام کو حد درجہ سہولیات دستیاب تھیں ۔آج ہماری بستیوں کی پہچان اونچی نیچی عمارتوں اور خستہ حال سڑکوں کی بناء پر ہو رہی ہے۔ آج بھی غریبوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور یہ غریب آج بھی تنزلی کے شکار ہیں جو آج سے 65سال پہلے تھے۔ میں ان باتوں سے انحراف نہیں کرتا بلکہ مجھے بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کی حالت کافی نازک ہے، ان کی ترقی کی راہوں میں کافی روڑے اٹکائے جاتے ہیں، انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں بھی کافی دشواریوں کا سامنا در پیش ہوتا ہے۔ عوام کی زندگی کافی دقتوں بھری ہے۔
پھر بھی ایک چھوٹی سی کوشش کرتے ہیں یہ جاننے کی کہ کیا ہمارے ملک کے عوام کی تنزلی کی وجہ صرف اور صرف حکومت کا دہرا رویہ ہے؟ کیا پاکستان کے عوام کی بدحالی کا ذمہ دار حکومت ہی ہے۔ یا پھر کہیں نہ کہیں ہم بھی قصوروار ہیں اپنی اس خستہ حالی کے؟کیا اپنی اس تنزلی میں ہمارا کوئی رول نہیں؟ کیا ہماری غلطیاں نہیں ہیں ہماری بدحالی کی وجہ؟ مجھے ایسالگتاہے کہ ہماری اس خستہ حالی اور تنزلی کاسبب صرف حکومت نہیں بلکہ ہم بھی ان میں برابر کے شریک ہیں،بہت ساری خامیاں ہیں ہمارے اندر جو ہمیں ترقی کی جانب گامزن ہونے سے روک دیتی ہیں۔ بہت سے مسائل ہیں جوہمارے خودکے کھڑے کئے ہوئے ہیں۔ اور ان غلطیوں، ان خامیوں اور اپنی کوتا ہیوں کا ٹھیکہ دوسروں کے سر پھوڑتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی اس بات کی کوشش کی کہ ہماری بدحالی میں ہماری غلطیاں کیا ہیں؟ اور کن وجوہات کی بناء پر ہم ان حالات کو پہنچے ہیں۔ خود کو کبھی ہم نے اس زاویے سے پرکھنے کی کوشش نہیں کی شاید!ہماری غلطی صرف یہی نظرآتی ہے کہ ہم نے ووٹ کاصحیح استعمال آج تک نہیں کیا۔ جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ پاکستان کے اُفق پر چھائے ہوئے موروثی سیاست کی بھینٹ چڑھتی یہ قوم اپنے کل کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھرمیں ان کی حالت ایک غلام قوم سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتا۔ دوسری اور سب سے اہم وجہ جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے وہ ہے فرقہ پرستی۔
آج ہمارے ملک میں خاص کر مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی بہت کمی ہے، فرقہ پرستی کے شکار پاکستانی قوم سب سے زیادہ ہیں شاید! اور یہ فرقہ پرستی انہیں ایک دوسرے کا جانی دشمن بھی بنادیتی ہے۔ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنا، چُن چُن کر خامیاں نکالنا، ایک دوسرے پرچھینٹا کشی کرنا آج ہماری عادت میں شامل ہو چکا ہے۔ دیو بندی، بریلوی، شیعہ، سنی، اہلحدیث جیسے فرقوں میں بٹ کر ہم نے اپنی جڑیں کمزور کر لی ہیں، اپنے آپ کو ایسی حالت میں پہنچا دیا ہے کہ ہر کوئی بآسانی ہم سے فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ دوسری قومیں ہمیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر اپنا کام نکال لیتی ہیں اور ہم صرف منھ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی اس خامی کو دور کرنا ہو گا، مذہبی اختلاف کو خود تک ہی محدود رکھنا ہو گا تاکہ دوسرے اس کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ایک دوسرے کے خلاف الٹی سیدھی اور دل آزاری والی باتوں سے بچنا ہوگا۔ اسلام نے خود کو فرقوں میں بانٹنے سے منع بھی کیا ہے اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ اس لئے ہمیں چاہیئے کہ آپس کی رنجشوں اور کشیدگی کو بھول کرخود کو آئین اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔
Communities
اگر کوشش کی جائے تو ہم اپنی اس کمی کو بھی دور کر سکتے ہیں اور اپنے حالات کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ صرف حکومتی سرپرستی اور عدل و انصاف کے منصفانہ نظام کی ضرورت درپیش ہوگی جو حکمرانوں کو مہیاکرناضروری ہے۔اب دیکھئے کہ ہمارے حکمران کب اور کس نہج پر جاکر اس غریب اور بلکتے ہوئے عوام کے بارے میں سوچتی ہے ۔کاش!کے انہیں جلد ہی ہوش آجائے تاکہ ہماری عوام جو اس وقت انتہائی نا گفتہ بہ حالات سے دوچارہیں ان کی خاطر خواہ داد رسی ہو جائے۔
دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کوئی بھی قوم جب غالب اور حاکم ہوتی ہے تو اس کے ادب ،اس کی تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کا گہرا اثر محکوم قوم پر پڑتا ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ منتقل ہوتی ہیں۔ گر اب حالات بدل رہے ہیں۔
ہماری قوم کے لوگوں کے تئیں لوگوں کا نظریہ بھی بدل رہاہے،حکومت بھی ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشش کرے،اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ حالات ضرور بدلیں گے۔ اور اگر ہم خود کوشش کریں تو ممکن ہے کچھ سال بعد ہماری قوم کے بھی حالات بدل جائیں لیکن شرط یہ ہوگی کہ ہم سب کو (یعنی عوام اور حکمران) مل کر کوششیں کرنی ہونگی۔ بقول علامہ محمد اقبال کے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا