حیرت کی بات ہے کہ لوگ تصویر کا ایک ہی رخ دیکھے جاتے ہیں۔ یا تو ان کے اذہان فریج میں رکھے سانچے کی مانند ہوتے ہیں کے بس اپنی ہی حدود میں رہنا ہے۔ سانچے میں موجود پانی برف بنتا ہے اور اسکا ہمسایہ پانی بھی مگر سب اپنی اپنی حدود میں تعینات رہتے ہیں۔ وہ پانی بے بس ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ افراد کے ذہن بھی مفقود’جامد’اور بلاک ہو جاتے ہیں۔
اور وہ کسی بھی خبر کو دوسرے زاویے سے نہیں پر کھ سکتے۔ خبر ہے کہ گلشن اقبال بلاک 6(کراچی )میں گلشن چورنگی پر واقع النساء میرج ہال میں مخیرحضرات کی جانب سے رمضان شریف کی آمد کے سلسلے میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بدنظمی کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔ وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ عقب سے آنے والی خواتین نے قطار میں موجود خواتین کو دھکے دیئے جس کی وجہ سے دو خواتین دم توڑ گئیں۔
اور سات زخمی ہوئیں۔ ہماری دانست میں اسکے تین پہلو ہیں۔ اول پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم 1947 سے لے کر اب تک کہیں بھی کسی بھی مقام پر قطار نہیں بناپائے۔ چونکہ قطار بنانے کیلئے صبر کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہمارے ہاں تیزی سے ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ قطار صرف غریب ہی نہیں توڑتے بلکہ ملازم طبقہ ‘سیاسی طبقہ ‘صنعت وزراعت سے منسلک لوگ الغرض ہماری پوری قوم اس مرض میں مبتلاہے۔
سیاسی بھی جب چاہتے ہیں سنیارٹی کی قطار کو تار تار کر کے عقب سے آنے والوں کو آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ اور کبھی کبھارہم خود آگے بڑھ کر سیاست دانوں کے پائوں پکڑ کر یا نیلے پیلے کاغذ کی مدد سے اپنے سے سنیئر کو روند ڈالتے ہیں۔ قطار سے یاد آیا کہ میرے کزن صابر حسین کہتے ہیں کہ لندن میں ہمارے ایک دوست قطار توڑنے لگے تو انگریز نے کہا ایسامت کیجئے ہم نے ایک صدی لگائی ہے۔
Police
قطار بناتے بناتے جناب انگریز نے قطار بنا کرہی ترقی کی ہے۔ اور اس حساب سے ہمارے کوئی 36 برس رہ گئے ہیں جیسے ہی ایک صدی مکمل ہوگی ہم قطار بنانا سیکھ جائیں گے۔ دوم قطار میں موجود لوگ جانتے ہیں کہ یہاں دھکے دے کر دوسروں کو روند کرہی اپنا حق مل سکتا ہے۔ کم وبیش پچھلے پینسٹھ سال سے میرٹ نام کی چیز نہیں ہے۔ پولیس جائے و قوعہ پرتو پہنچ گئی۔
لیکن کیاہی اچھا ہوتا کہ پولیس عوام سے اتنی فرینک ہوتی کہ مخیرحضرات انھیں پہلے ہی بلوا سکتے۔اور اتنے اچھے کردار کی حامل ہوتی کہ لوگ ان کی بات آسانی سے مان جاتے۔یہ محض گلشن اقبال کا معمولی واقعہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویرہے۔ پولیس اور ہم میں جو دوریاں ہیں وہ نظام کی خرابی ہیں۔ کوئی بھی ادارہ برانہیں ہوتا اسے سیاسی مداخلت خراب کرتی ہے۔
اگر سفارش’رشوت’اقربا پروری سے اس ادارے کو پاک کر دیا جائے اورشفاف بھرتیاں ہوں تو اس ادارے کو چارچاند لگانے والے لوگ اب بھی اس میںہرسطح پر موجود ہیں۔ سوم اگر تصویر کا دوسرارخ دیکھا جائے تو اس غریب عوام کی بے صبری سمجھ میں آتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جویہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ منظم انداز سے امداد بھی نہیں لے سکتے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ ذرا دیر کو لوڈ شیڈنگ سے بے نیاز’اس نازک’ملوک طبقے کو بے سر و سامان کر کے دیکھیں’یہ نسل درنسل غریب عوام سے زیادہ اودھم مچائیں گے۔ وہاں تو خواتین ہجوم تلے روندیں گئیں۔ یہ تو اپنے سے آگے والوں کی گردنیں مارکے آگے بڑھنے میں کوئی کسرنہ اٹھار کھیں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان عورتوں نے کچھ اچھا کیا بلکہ یہ کہتا ہوں کہ ان کا حق چھینا گیا۔
Musharraf
انھیں بے سروسامان کیا گیا۔ انھیں ستایا گیا ۔انکے بچے سسکتے ہیں بلکتے ہیں ترستے ہیں تو پھر وہ کیوں نے بے صبرے ہوں۔میں سوچ رہاہوں کہ اگر مشرف کا ساتھ دینے والوں کو سزاملنی چاہیئے (کیونکہ لوگ کہتے ہیں انھوں نے مشرف کی مدد کرکے اسے اس مقام تک پہنچایا کہ وہ آئین توڑ سکے)تو پھر جس جس نے پاکستان کی تاریخ میں ان لوگوں کو غریب سے غریب تر کرنے کیلئے اقدام اٹھائے ہیں۔
اس ہجوم کی مجرم خواتین کے ساتھ ساتھ انھیں بھی لٹکایا جایا۔ عقب سے آنے والے ہر شخص کو مجرم ٹھہرا کر سزادی جائے۔ عجب رنگ ہیں اس دنیا کے بھی کہ وجہ نزاع کو چھوڑ کر ثانوی واقعات کو دیکھا جاتا ہے۔ سرائیکی میں کہتے ہیں”گراں آلے بھج گئے تے چھوڈیاں آلے نپے گئے یعنی تربوز کھانے والے چور بھاگ گئے جب کہ تربوز کے چھلکے کو رگڑ رگڑ کے کھانے والے پکڑے گئے۔
میں بھگدڑ کے مجرموں کا ہرگز حامی نہیں انہیں قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے لیکن تربوز والوں کو کب ملے گی آخر کب۔ جسے ہماری منطق اچھی نہ لگے سو اسکی مرضی ہمیں جن الفاظ میں یاد کرے لیکن یاد رہے تخت کسی کا نہیں رہتا۔ حیرت کی بات ہے کہ لوگ تصویر کا ایک ہی رخ دیکھے جاتے ہیں۔ یاتوان کے اذہان فریج میں رکھے سانچے کی مانند ہوتے ہیں۔
کے بس اپنی ہی حدود میں رہناہے۔ سانچے میں موجود پانی برف بنتاہے اور اسکا ہمسایہ پانی بھی مگر سب اپنی اپنی حدود میں تعینات رہتے ہیں۔ وہ پانی بے بس ہوتا ہے ۔اسی طرح کچھ افراد کے ذہن بھی مفقود’جامد’اور بلاک ہو جاتے ہیں اور وہ کسی بھی خبر کو دوسرے زاویے سے نہیں پر کھ سکتے۔ تحریر: سمیع s0333_9838177@yahoo.com